کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 9
(1)تعزیراتِ پاکستان کے تحت صرف مرد ہی زنا بالجبرکا مرتکب قرا رپاسکتا تھا۔ لیکن حدود قوانین کے تحت اب مرد یا عورت میں سے کوئی بھی ملزم ہوسکتا ہے۔ (2)سابقہ قانون کے مطابق 15 سال سے کم عمر عورت کے ساتھ اس کی رضا مندی سے کی جانے والی مباشرت بھی زنا بالجبر کہلاتی ہیں ۔ جبکہ حدود قوانین میں سالوں کے بجائے بلوغ کو بنیادبنایا گیا ہے۔ اب کسی بھی نابالغ لڑکی سے زنا ہو، چاہے اس کی عمر 15 سال سے زائد ہی کیوں نہ ہوجائے، زنا بالجبر کہلائے گا۔ (3)حدود قوانین میں شادی شدہ عورت یامرد کے لئے زنا بالجبر کی سزا سنگسار کے ذریعے سزاے موت اور غیر شادی شدہ کے لئے 100 کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ سابقہ قانون میں اس جرم کی سزا دس سال تک قید اور جرمانہ تھی۔ (4)حدود قوانین میں یہ اہتمام بھی رکھا گیا ہے کہ اگر تزکیہ الشہود (چار مردوں کی گواہی) کے معیار پر زنا بالجبر کا جرم ثابت نہ ہوسکے تو مقدمہ کے دیگر حالات و واقعات کی روشنی میں 4 سے 25 سال تک سزاے قید بھی دی جاسکے گی اور 30 کوڑے بھی مارے جائیں گے۔ اسی طرح اگر اس جرم کا ارتکاب دو یا دو سے زیادہ افراد ہم مشورہ ہوکر کریں تو ایسے تمام افراد کو سزائے موت بھی دی جاسکے گی۔ اغوا اور دھوکہ دہی ؛ قوانین کا تقابل زنا اور زنا بالجبر کے بعد اغوا، غیر فطری فعل کے لئے اغوا، عصمت فروشی، دہوکہ سے مباشرت اور عورت کو بھلا پھسلا کر لے جانے جیسے جرائم میں سابقہ اور موجودہ قوانین میں ایک طائرانہ نگاہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگی۔ سابقہ قانون یعنی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 366 میں ’اغوا‘ کی تعریف جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے، ان کا ترجمہ اور مفہوم یہ ہے : ”اگر کوئی شخص کسی عورت کو اس نیت کے ساتھ اغوا کرتا ہے کہ وہ خود اسے مجبور کرے گا کہ وہ اپنی رضا مندی کے خلاف اس سے شادی یا مباشرت کرے یا پھر یہ امر معلوم ہونے کے باوجود کہ اسے اپنی مرضی کے خلاف کسی سے شادی یا مباشرت کرنے پر مجبور کیاجائے گا یا ورغلایا جائے گا۔ وہ ایسا کرتا ہے تو اسے دس سال تک قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔ اسی