کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 6
بجائے خود کوئی جرم نہیں تھا ۔ بلکہ یہ فعل خاوند کے حق میں مداخلت کی و جہ سے جرم بنتا تھا۔ حدود قوانین نے یہ تخصیص ختم کردی ۔
(4)سابقہ قانون میں کسی غیر شادی شدہ عورت ، کنواری لڑکی، بیوہ یا مطلقہ سے کیا گیا جنسی فعل زنا تصور نہیں ہوتا تھا۔ موجودہ قانون کے مطابق اپنی بیوی کے سوا کسی بھی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورت سے مباشرت کو زنا قرار دے دیا گیا ہے۔
(5)سابقہ قانون میں صرف مرد ہی کو زنا کا ملزم قرار دیا جاسکتا تھا۔ زنا کے جرم میں شریک خاتون کے لئے کوئی سزا مقرر نہ تھی۔ اور اسے جنسی افعال کا مرتکب ہونے کی کھلی چھٹی حاصل تھی۔ حدود قوانین نے یہ استثنا ختم کردیا ہے۔ اب باہمی رضا مندی سے زنا کے مرتکب ہونے والے عورت اور مرد دونوں ملزم قرار پاتے ہیں ۔
(6)سابقہ قانون کی رو سے زنا کا جرم قابل راضی نامہ تھا۔ اگر مدعی ملزم کو معاف کردیتا تو مقدمہ خارج کردیا جاتا تھا۔ موجودھ قوانین نے اس جرم کو ناقابل معافی جرم کا درجہ دے دیا ہے۔
(7)سابقہ قانون میں جرمِ زنا قابل ضمانت تصور ہوتا تھا۔ ملزم گرفتاری کے فوراً ہی بعد ضمانت کا حق رکھتا تھا۔ حدود قوانین نے اس جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا ہے۔ اب صرف مخصوص حالات اور موجبات ہی کی بنا پر ضمانت ہوسکتی ہے۔
(8)سابقہ قانون کی رو سے زنا کے جرم پر پانچ سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھیں ، جبکہ موجودہ قانون مجرم کو حد کی صورت میں سنگسار کے ذریعے سزائے موت یا سو کوڑے اور تعزیر کی صورت میں دس سال قید بامشقت، 30 کوڑوں اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔
زنا بالجبر کے قوانین ؛ تقابلی مطالعہ
اب آئیے زنا بالجبر کے حوالے سے قوانین میں ترمیم و اضافے پرایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں ، سابقہ قانون یعنی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375 میں زنا بالجبر کی تعریف کچھ اس طرح