کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 5
سابقہ قوانين اور حدود آرڈيننس ؛ ايك تقابل اس مرحلے پر حد زنا آرڈیننس میں بیان کردہ جرائم کی تعریف اور سابقہ فوجداری قانون کا ایک تقابلی جائزہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ موجودہ قوانین کے نفاذ سے قبل رائج الوقف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 497 میں لفظ ’زنا‘ کی تعریف بیان کی گئی تھی، وہ کچھ اس طرح سے ہے : ”جو کوئی کسی عورت کے ساتھ مباشرت کرتا ہے اور اس کے بارے میں اسے علم یا یقین ہے کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے اور وہ اس شخص کی اجازت یا اس سے مشاورت کے بغیر اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے، نیز اس کا یہ فعل زنا بالجبر کے زمرے میں بھی نہیں آتا تو تصور کیا جائے گا کہ اس نے زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس جرم پراسے پانچ سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔ اس مقدمہ میں بیوی کو بطورِ ’ترغیب دینے والی ‘ کے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔“ اس کے مقابلے میں حد زنا آرڈیننس کی دفعہ 4 میں اس جرم کی تعریف بیان کی گئی ہے جسے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے : ”ایک مرد اور ایک عورت جو جائز طور پر آپس میں شادی شدہ نہیں ہیں ، زنا کے مرتکب قرار پائیں گے؛ اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی جبر کے ، رضا مندی سے مباشرت کرتے ہیں ۔“ سابقہ اور موجودہ قوانین کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو دونوں کے مندرجہ ذیل امتیازی نکات نکھر کر سامنے آتے ہیں ۔ (1)سابقہ قانون کے مطابق خاوند اور بیوی کی رضا مندی سے اگر کوئی شخص بیوی سے جنسی فعل کا مرتکب ہو تو اسے جرم زنا کا مرتکب نہیں گردانا جاسکتا تھا لیکن موجودہ حدود قوانین نے یہ استثنا ختم کردیا ہے۔ خاوند کی رضا مندی ہو نہ ہو، زنا اب ہر حال میں جرم قرار پاتا ہے۔ (2) سابقہ قانون میں زنا کی مرتکب عورت کا شوہر ہی اس کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتا ہے کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں تھا لیکن حدود قوانین کے مطابق کوئی بھی شہری مدعی بن سکتا ہے۔ (3)سابقہ قانون میں صرف کسی شادی شدہ عورت سے مباشرت کرنا جرم قرا رپاتا تھا۔ زنا