کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 43
لائے اورنیک عمل کئے اور جنہوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔“ اس اُصول کے تحت قومِ نوح کی غرقابی، عاد و ثمود اور قومِ لوط کی ہلاکت اور قومِ فرعون کا دریاد برد ہونا مرورِ زمانہ کی وجہ سے نہیں ، بلکہ خالق ارض و سماء کے احکامات کی خلاف ورزی کی بنا پر تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بزبانِ قرآن واضح کردیا کہ امن و امان کا قیام عقیدۂ توحید سے وابستہ ہے، شرک یا مظاہر شرک سے نہیں …! ﴿اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْا إيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ ”جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔“ (الانعام:82) ’ظلم‘ ذو معنی لفظ ہے، اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کئے جانے پر واضح کردیا کہ ظلم سے مراد شرک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ استشہاد یہ آیت پڑھی : ﴿إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ (لقمان:13) ”بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔“ ایک اللہ کو پکارنا انسانی فطرت کی پکار ہے تو غیر اللہ کو پکارنا فطر ت سے بغاوت ہے۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل کا اسلام لانا انسانی فطرت کے اسی پہلو کا آشکارا ہونا تھا۔ فتح مکہ کے وقت عکرمہ کا نام ان آٹھ اشخاص میں شامل تھا جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ اگر وہ کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے بھی پائیں جائیں تو ان کی جان بخشی نہ کی جائے، عکرمہ ساحل ِسمندر کی طرف بھاگا اور پھر اس پہلی کشتی میں سوار ہوگیا جو عازمِحبشہ تھی۔ اس کشتی میں بہت سے مشرکین عرب بھی سوار تھے، کشتی سمندر کے سینہ پر خراماں خراماں اٹھکیلیاں کرتی رواں دواں تھی کہ سمندر کی موجیں طوفان بن کر کشتی سے ٹکرا گئیں ۔ عکرمہ نے دیکھا کہ یہی عرب جو لات، ہبل ، مناف کو پکارتے نہ تھکتے تھے، اب اللھ کے نام کی دہائی دے رہے تھے ،وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے : اخلصوا فإن آلهتكم لا تغنى عنكم شيئا ههنا ”خلوصِ دل سے دعا کرو کہ تمہارے خدا اس مقام پر تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔“ اس وقت عکرمہ نے کہا: ”اللہ کی قسم! اگر سمندر میں صرف اخلاص ہی بچا سکتا ہے تو پھر خشکی میں بھی وہی بچا سکتا ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگرتو نے مجھے اس مصیبت