کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 42
(1) عقیدہ کی درستگی اور پختگی کسی بھی تحریک کی اصل بنیاد وہ عقیدہ ہے جس پر اس تحریک کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ مشرکین عرب کا یہ عقیدہ کہ ﴿مَا هِىَ إلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيٰى وَمَا يُهْلِكُنَا إلاَّ الدَّهْرُ﴾ ”ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے۔“(سورۃالجاثیہ:24) ان کے سارے تصرفات، جنگ و جدال اور معاملات پرحاوی تھا۔ گویا کہ ع بابر بعیش کوش کے عالم دوبارہ نیست! ان کے نزدیک زندگی ایک درخت کی مانند ہے جو کہ کونپل کی شکل میں زمین سے پھوٹتاہے، پودے کی شکل اختیار کرتا ہے پھر تنا آور درخت بن جاتا ہے، برگ و بار پیدا کرتا ہے، پھلدار ہو تو عالم کو فیض یاب کرتا ہے، گھنا ہو تو سایہ دار رہتا ہے، بہار میں جانفزا اور خوشنما، خزاں اس کی ناتواں اور بے مزا، تنا اس کا مضبوط ہو تو آندہیوں اور طوفانوں کے تھپیڑوں میں بھی ٹکا رہتا ہے ،لیکن کب تلک! مرورِ ایام سے ایک وقت آتا ہے کہ اس کے پتے سوکھ جاتے ہیں ، زندگی کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں ، اور پھر ہلکا سا ایک جھٹکا اسے زمین بوس کر دیناہے، اس کی حیات و موت گردشِ زمانہ کے تابع ہے، نہ اس میں ثواب کا دخل، نہ عقاب کا عمل، نہ ہی رضائے الٰہی کا ظہور اور نہ ہی عذابِ سماوی کاکوئی دستور۔ انہیں انسانی زندگی اور نباتاتی دنیا میں طبعی اصولوں کا اشتراک تو نظر آیا، لیکن وہ ان اخلاقی اُصولوں سے صرفِ نظر کرگئے جس کی وجہ سے ایک مسلم اور دہریے میں امتیاز قائم ہوتا ہے۔ کفار کے تصورِ زندگی کے برعکس قرآن نے واشگاف اعلان کیا کہ دنیا کے اس اسٹیج پر کتنی ہی قومیں آئیں ، زمانہ ان کے لئے صرف ایک جام کی مانند تھا۔ بطورِ ساقی یہ ان کا کام تھا کہ اسے پانی سے بھر دیتے اور عالم کی پیاس کا مداوا کرتے، دودہ سے بھردیتے اور نیک نام کہلاتے یا پھر یہ جام نبت ِعنب کی نذر کردیتے اور عالم مخمور ہوجاتا یا زہر سے بھر دیتے کہ ہر طرف ہلاکت کا دور دورہ ہوتا۔ ﴿وَالْعَصْرِ،إنَّ الإنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ إلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر) ”زمانے کی قسم، بے شک انسان سرتاسر نقصان میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان