کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 41
بول بالا کرنے اور شرکیات کی بیخ کنی کے لئے شروع کی گئی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو وہ نصرت اور کامیابی عطا کی کہ دو سو سال گزرنے کے باوجود اس تحریک کے بابرکت اثرات سعودی عرب میں دیکھے جاسکتے ہیں جن میں امن و امان کا قیام اور تمکین دین (یعنی شریعت کا نفاذ) سرفہرست ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ انعام اس وقت تک جاری رہے گا جب تک توحید ِباری تعالیٰ اور دین ِخالص کی پاسداری جاری رہے گی۔آیت ِاستخلاف کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت بروایت ِاُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی ملاحظہ رہے: (بشر هذه الأمة بالسناء والرفعة والدين والنصر والتمكين في الأرض فمن عمل منهم عمل الآخرة للدنيا لم يكن له فى الآخرة نصيب) ”اس اُمت کو رفعت و عالی مراتب کی، دین اور فتح و نصرت کی اور زمین میں متمکن ہونے کی بشارت دے دو، لیکن ان میں سے جو شخص آخرت کا عمل دنیا کی خاطر کرے گا تو آخرت میں کوئی حصہ نہ پاسکے گا۔“6 خلافت فی الارض کا جواز اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمہیدی گذارشات کے بعد آیئے ان عوامل کا جائزہ لیا جائے جو عہد ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مسلمانوں کے لئے باعث ِفتح و کامرانی اور تمكين في الأرض ہوئے تھے اور بعد کے ادوار میں بھی ان کے لئے سرمایہٴ افتخار رہے اور جن کی پابندی آج بھی اُمت ِمسلمہ کے لئے باعث نجات ہوسکتی ہے۔اختصار کے ساتھ یہ چار عوامل ہیں : ٭ ایمان بحیثیت ِبنیاد ٭ فراہمی قوت ٭ صفوں کی شیرازہ بندی ٭ اور جہاد ٭ ایمان:عقیدہ،عبادت، صالح معاشرہ کے قیام اور امربالمعروف ونہی عن المنکرکو شامل ہے۔ ٭ قوت میں سائنس، ٹیکنالوجی اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق آلاتِ حرب کا حصول شامل ہے۔ ٭ صفوں کی شیرازی بندی میں داخلی اتحاد، تفرقہ بازی اور انتشار فکری کا قلع قمع اور خارجی وحدت شامل ہے۔ ٭ جہاد میں جہاد دعوت الیٰ اللہ اور جہاد بمعنی قتال شامل ہیں ۔ گویا تفصیلی طور پر یہ دس عوامل ہوئے جن پر اب مفصل کلام کیا جاتا ہے :