کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 4
آف امریکہ کی ایک رپورٹ نے مہمیز کا کام کیا۔ یہ رپورٹ سال 2003ء میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تیار کی گئی تھی جو مئی 2004ء میں پاکستان کے اخبارات کی زینت بنی۔ اس رپورٹ میں حدود قوانین کے ساتھ ساتھ قانونِ توہین رسالت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قوانین انسانی حقوق کے عالمی چارٹر سے متصادم ہیں ۔ مزید یہ کہ ان قوانین کی موجودگی میں پاکستان کی اقلیتیں اپنے آپ کو سخت غیر محفوظ اور ہراساں محسوس کررہی ہیں ۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے چند ہی روز بعد جنرل پرویز مشرف صاحب نے ایک بیان کے ذریعے اپنے سابقہ موقف کا پرزور اعادہ کیا اور حدود قوانین کو ایک فردِ واحد کے بنائے ہوئے قوانین قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی اور ترامیم پر زور دیا۔ 5جون 2004ء کو پاکستان کی وزارتِ قانون کی جانب سے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا گیا کہ حکومت کے قانون سازی سے متعلق ادارے حدود قوانین میں ترامیم کی تجاویز پر تیزی سے کام کررہے ہیں جن پر بہت جلد عمل درآمد کے لئے پیش رفت متوقع ہے۔ محدث (جنوری 2004ء )کے انہی صفحات میں حدود قوانین کے حوالے سے گذشتہ چند ماہ کی پیش رفت کی تفصیلی رپورٹ بھی شائع ہوچکی ہے، جس سے قارئین کو اس بحث کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف امریکہ کی رپورٹ اور حکومتی ردعمل کے بعد ملک بھر میں حدود قوانین ایک مرتبہ پھر زیر بحث آگئے ہیں ۔ اسلامی حلقے ان قوانین کی منسوخی یا ترامیم کے خلاف سخت اقدامات کے اعلانات کررہے ہیں ۔ جبکہ مغربی سوچ سے متفق افراد اور این جی اوز ذرائع ابلاغ کے ذریعے حدود قوانین کے خلاف زور و شور سے مہم چلا رہی ہیں ۔ ملک بھر کے انگریزی اخبارات اور ذرائع ابلاغ کی اکثریت موٴخر الذکر حلقوں کی ہم نوا بن چکی ہے اور عوام کے ذہنوں پر شکوک و شبہات کے گھرے سائے منڈلا رہے ہیں ۔ لوگ ان قوانین کے بارے میں تفصیل جاننا چاہتے ہیں تاکہ وھ خود بھی ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرسکیں اور یہ جان سکیں کہ حدود قوانین سابقہ فوجداری تعزیری قوانین سے باہر ہیں یا ان کے نفاذ سے انسانی حقوق پر ناقابل تلافی زد پڑ رہی ہے اور ان کی منسوخی ہی اس نقصان کا واحد علاج ہے۔