کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 33
سیرتِ طیبہ ڈاکٹر صہیب حسن، لندن٭ دورِ حاضر میں اُمت ِمسلمہ کے مسائل اور حیاتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اُن کے حل آج سے ایک سو سال قبل اُمت ِمسلمہ نو آبادیاتی نظام میں جکڑی ، بے بسی اور بیچارگی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ آج 57/آزا دممالک کی شکل میں قوت، عددی اکثریت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ذلت، عاجزی اور درماندگی میں اسی مقام پر کھڑی ہوئی ہے، جہاں سوسال قبل تھی۔ سقوطِ بیت المقدس (1967ء) سے شروع ہوکر کابل اور بغداد پر دشمنانِ اسلام کی یلغار مسلمانوں کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ آئیے ان اسباب کاجائزہ لیاجائے جو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچنے کا باعث بنے اور پھر اس رستے کی نشاندہی کی جائے جو اندھیروں کی ان تاریک گلیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہماری بات قرآنِ مجید، سیرتِ مطہرہ اور اقوالِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک محدو د رہے گی کہ بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق و کردار دیکھنا ہو تو قرآن کا مطالعہ کرلو۔1 خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی سے رہنمائی حاصل کی اور پھر قیامت تک کے لئے اُمت کے لئے اُسوۂ حسنہ قرار دیئے گئے: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوْا اللهَ وَالْيَوْمَ الآخِرِ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيْرًا﴾ (سورۂ احزاب:21) ”یقینا ً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔“ زوال اُمت کے اسباب اُمت کے اسبابِ زوال پر نظر ڈالئے تو ان چند حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی: (1) سنت ِالٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے روگردانی اور ٭ صدر القرآن سوسائٹی ’ لندن ‘ سیکرٹری اسلامی شریعت کونسل ’ برطانیہ ‘ اور رکن سپریم کونسل اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ