کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 32
٭ برطانیہ میں دیگر مقدمات کے فیصلوں کے ایک اور مقدمہ میں یہ بھی فیصلہ دیاگیا ہے کہ توہین مسیح علیہ السلام کے علاوہ کسی اور مذہب (مثلاً اسلام) کے رہنما اور پیغمبر کی گستاخی کو’بلاس فیمی‘ تصور نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ اوربرطانیہ کی ریاستوں میں مسلمان اور دیگرمذاہب کے پیروکار وہاں کے شہری ہیں لیکن بلاس فیمی کی موجودگی سے وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پھر کیا صرف اسلامی مملکت پاکستان جہاں کا سپریم لاء قرآن اور سنت ہے ، اس کے لئے ہی یہ امر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر کوئی سزا نہ دی جاسکے)، جبکہ پاکستان کے اس قانون میں نہ صرف نبی کریم کی توہین بلکہ دیگر انبیا کرام کی توہین پر بھی سنگین سزا قرار دی گئی ہے۔
راقم الحروف کے مقدمہ ’محمداسمٰعیل قریشی بنام حکومت ِپاکستان‘ کی سماعت کے دوران تمام مکاتب ِفکر کے علما کے متفقہ بیان کے بعد بلا س فیمی لاء قرآن وسنت اور اجماعِ اُمت کے عین مطابق ہے۔ یہ فیصلہ فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان نے سال ۱۹۹۰ء میں صادر کیا ہے۔ اس کی اپیل بھی سپریم کورٹ سے خارج کردی گئی ہے۔ اوریہ قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی منظور کیا ہواہے۔اس کے بعد امریکہ کے کسی ڈیپارٹمنٹ کو یہ اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ یہاں پرلاگو قانونِ توہین رسالت اوراس کے بارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلہ پرنکتہ چینی کرے اورانہیں ہیومن رائٹس کے خلاف قراردے۔ جبکہ بلاس فیمی لاء خود امریکہ کے اندرنیزبرطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہے۔ ایسی رپورٹ کی وجہ سے یہاں کی نوے فیصد اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام امریکہ کے شہریوں کے جذباتِ حریت اور احترامِ انسانیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، لیکن ان شہریوں کو امریکہ کے مسلمانوں پر صریح ظلم کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ اسی طرح موجودہ برسراقتدار حکومت کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں سے اپنے خلاف نفرت کو انگیز کرے۔
(اس موضوع پر محدث کے درج ذیل تحقیقی مضامین کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (ادارہ)