کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 31
٭ بظاہر یوں معلوم ہوتاہے کہ رپورٹ کے فاضل مصنّفین کو خود اپنے ملک یا برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں کے قانونِ توہین مذہب اور وہاں کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلوں کا علم نہیں ۔ امریکہ جو ایک سیکولر ریاست ہے وہاں ’بلاس فیمی لاء‘ (Blasphemy Law) یعنی توہین مسیح علیہ السلام کاقانون موجود ہے۔ وہاں کی سپریم کورٹ نے واضح طور پر مشہور موکس کیس (Mockus Case)کے بارے میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ امریکہ کے صدر مملکت، اس کی کانگریس کے اراکین ، عدلیہ اور انتظامیہ سب بائبل مقدس پر اپنے عہدوں کاحلف لیتے ہیں ۔ وہاں کی ریاستوں کی آبادی اسلام یا بدھ مت کی مذہبی اقلیت کی نہیں بلکہ عیسائی مذہب کی پیروکار ہے۔ مسیحیت کی وجہ سے ریاست کی اجتماعی قوت برقرار ہے، ان حالات میں کسی کو خدائے مسیحیت (اصل الفاظ: (God of Christcan religion ie Jesuschrist جناب مسیح علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کی وجہ سے مملکت کی بنیادوں میں رخنہ اندازی ہوسکتی ہے، اس لئے بلاس فیمی لاء کسی صورت میں بنیادی حقوقِ انسانی کے ہرگز خلاف نہیں ۔ ٭ برطانیہ میں قانونِ توہین مسیح علیہ السلام وہاں کا کامن لاء (Common Law) ہے جس کے لئے پہلے سزاے موت تھی اور اس جرم پر عربوں کو آگ میں زندہ جلا دیا جاتاتھا۔ لیکن چونکہ اب وہاں سزاے موت کا قانون موقوف ہے، اس لئے بلاس فیمی کے سنگین جرم کی انتہائی سزا سزاے عمر قید کردی گئی ہے۔ انگلستان میں راقم الحروف کے قیام کے دوران (۱۹۸۶ء) لندن کے ایک میگزین’گے نیوز‘ کے ایڈیٹر کو توہین مسیح علیہ السلام کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔ ایڈیٹر نے اپنی صفائی میں یہ دلیل دی تھی کہ اس کی نیت کبھی بھی توہین مسیح علیہ السلام کی نہیں تھی اور نہ ہوسکتی تھی بلکہ اس میگزین میں شائع شدہ نظم صرف تفریح ِطبع کے لئے لکھی گئی تھی۔ عدالت کے فیصلہ میں کہا گیا کہ بلاس فیمی میں نیت اور ارادے کونہیں دیکھاجائے گا بلکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ کیا ان الفاظ سے توہین مسیح علیہ السلام کے جرم کا اظہار ہواہے؟ جیوری کی رائے کہ ان الفاظ سے توہین مسیح ظاہر ہوئی ہے، اس لئے اسے یہ سزا دی گئی ہے، اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی جو خارج کردی گئی۔ پھر اس کے خلاف انگلستان کی سب سے بڑی عدالت کوئینز بنچ(Quens Bench) میں یہ مقدمہ گیا جہاں بھی سال ۱۹۹۰ء میں ابتدائی عدالت کا فیصلہ برقرار رہا۔