کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 3
شامل تھے۔ اس کمیشن کے چند ایک ارکان کے نام جو راقم الحروف کے ذہن میں محفوظ ہیں ، وہ یہ ہیں : جناب اے کے بروہی، جناب خالد ایم اسحق، جسٹس محمد تقی عثمانی، مفتی سیاح الدین کاکاخیل، جناب جسٹس محمد افضل چیمہ، ڈاکٹر معروف دوالیبی اور حافظ صلاح الدین یوسف ۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی 2002ء میں حدود آرڈیننس کے مسودے پر نظرثانی کے لئے ایک اجلاس بلایاتھا۔ جس میں اعلیٰ پائے کے قانون دانوں اور علما نے شرکت کی اور اس قانون کی ایک ایک شق اور لفظ پر غوروخوض ہوا اور تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس نمائندہ اجلاس نے پوری ذمہ داری سے قرار دیا کہ ان قوانین میں ایسی کسی شق کی نشاندہی نہیں ہوسکی جسے تبدیل کرنے کی سفارش کی جاسکے۔ ایک طرف تو حدود قوانین کے نفاذ کا مذکورہ بالا پس منظر ہے۔ جبکہ دوسری طرف ’ترقی پسند اور روشن خیال‘ حلقوں کی جانب سے ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی اعتراضات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ حدود قوانین پر تنقید واعتراضات کی مہم کو نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ایک نیا جوش اور ولولہ حاصل ہوا ہے۔ اور تو اور خود پاکستان کے حکمران جناب جنرل پرویز مشرف صاحب متعدد بار اس خیال کااظہار کرچکے ہیں کہ حدود قوانین کیونکہ فر دِ واحد کے نافذ کردہ ہیں ، اس لئے ان پرنظرثانی وغیرہ کرنے میں کوئی پابندی یامضائقہ نہیں ہے۔ اپنے اس موقف کو تقویت دینے کے لئے جنرل صاحب نے ’نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن‘ کو حدود قوانین کااز سر نو جائزہ لینے کافریضہ سونپا۔ کمیشن کی چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس واجدہ رضوی نے 2003ء کی آخری سہ ماہی میں اپنی جائزہ رپورٹ جنرل پرویز مشرف کو پیش کی جس میں کہا گیا تھاکہ حدود قوانین میں تبدیلیوں یا ترمیمات سے عورتوں کے حقوق پر پڑنے والے منفی اثرات کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اس لئے ان قوانین کو سرے سے ختم کردینا ہی مناسب ہے۔ کمیشن کے دو ارکان نے البتہ اس رپورٹ سے اختلاف کیا اور ان قوانین کی منسوخی کے بجائے ان میں مناسب ترامیم کو ممکن قرار دیا۔ ان سفارشات کے آتے ہی حکومتی حلقوں نے سرگرمی سے حدود قوانین میں تبدیلی کے امکانات اور اثرات پر کام شروع کردیا۔ اس صورت حال پر بعد ازاں ہیومن رائٹس کمیشن