کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 23
پایا ہے تو اس پر نفاذِ حد کی سزا لاگو نہیں کی جاسکتی۔ جب تک کہ اسے وہ تمام حالات بیان کرنے اور سچائی ثابت کرنے کاموقع نہ دیاجائے۔ اور یہ بات نکھر کر سامنے نہ آجائے کہ اس جرم میں اس کی بلا جبر و اکراہ رضا مندی شامل تھی۔“ وفاقی شرعی عالت کی اس صراحت کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس ضمن میں قانون میں کوئی سقم نہیں ہے۔ بلکہ ہوسِ زر میں مبتلا پولیس اہلکاروں کا ’دست ِکرشمہ سازی‘ اس لاقانونیت کا ذمہ دار ہے۔ حدود قوانین کے بجائے پولیس ضوابط میں موٴثر ترمیم کرکے اس لاقانونیت کے آگے بہتر بند باندھا جاسکتا ہے۔ ساتواں اعتراض:خواتین کی مغرب زدہ این جی اوز کی جانب سے حدود قوانین پر تنقید کے دوران یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دھوکہ دہی کا شکار ہوکر اغوا ہونے والی بے قصور خواتین کوبھی ان قوانین کی وجہ سے جرائم میں ملوث کرلیا جاتاہے جو عورتوں کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اس اعتراض کاتعلق دراصل حد زنا آرڈیننس کا دفعہ 16 سے جڑاہوا ہے۔ دفعہ 16 کامتن حسب ِذیل ہے: ”جو کوئی کسی عورت کو اس نیت کے ساتھ بھلا پھسلاکر لے جاتا ہے کہ وہ اس شخص سے مباشرت کرے گی یا اس (مباشرت کی ) نیت سے اسے چھپا کر رکھتا ہے یاقید کرتا ہے تو اسے سات سال تک قید، 30 تک کوڑوں اور جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔“ قانون میں وضع کی گئی مذکورہ بالا عبارت ہی سے عیاں ہے کہ دہوکہ کا شکار ہوکر اغوا ہونے والی عورت کو معصوم تصور کیاگیا ہے اور اس کے لئے نہ تو کسی قید، نہ کوڑوں اورنہ ہی جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ بلکہ یہ تمام سزائیں بیک وقت اس شخص کا مقدر بنائی گئی ہیں جو مباشرت کی نیت سے کسی عورت کوبھلا پھسلا کر اور دھوکے میں رکھ کر اغوا کرتا ہے یا اس غرض سے اسے اسیر بناتاہے۔ یہاں بھی صورتِ حال وہی ہے جس کا تذکرہ پھلے ہوچکا ہے۔ یعنی اگر کسی ایسی مظلوم عورت کو گرفتار کیا جاتا یا حوالات میں بند کیا جاتا ہے یا اس پر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے تو یہ قانون کی نہیں بلکہ اسے نافذ کرنے والوں کی بددیانتی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق دفعہ 16 کے تحت عورتوں کو غلط طور پر ملوث کرنے کے راولپنڈی میں 37فیصد اور اسلام آباد میں 43