کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 22
حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر تجاوزات کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔“
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں زیر بحث اعتراض، محض اعتراض برائے اعتراض کی حیثیت رکھتا ہے۔
چھٹا اعتراض: حد زنا آرڈیننس پر عمل درآمد کے دوران زنا یا زنا بالجبر کے مقدمات میں عورت تو ہرحال میں قانونی شکنجہ میں پھنس جاتی ہے لیکن مرد اکثر اوقات بچ نکلتا ہے۔
جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے تو اس میں درحقیقت قانون پر نہیں بلکہ قانون پر عمل درآمد کے طریقے کو ہدفِ تنقید بنایا جاتاہے۔ زنا بالرضا میں مرد اور عورت دونوں ہی قابل گرفت قرار دیئے جاتے ہیں ۔ لیکن زنا بالجبر میں زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو گرفتار کرنا ، حوالات یا جیل میں ڈالنا یا پھر سزا کا مستوجب قرا ردینا بالکل غیر قانونی عمل ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ایسے ہی ایک مشہور مقدمے میں حسب ِذیل صراحت کی ہے :
”اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کا شکار عورت کو کسی طرح کی سزانہیں دی جاسکتی، چاہے وہ حد ہو یا تعزیر، البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے وہ نفاذ ِحد یا تعزیری سزا کا مستحق ہے۔“ (پی ایل ڈی 2000ء وفاقی شرعی عدالت ، صفحہ نمبر 1)
پولیس والے عام طور پر ایک غیر شادی شدہ عورت کے حاملہ ہوجانے پر اس کے خلاف حدود زنا آرڈیننس کے تحت پرچہ کاٹ کر اسے گرفتار کرلیتے ہیں اور اس کاجواز یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا غیر قانونی حمل ہی اس کے گناہ اور زنا کا مرتکب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایسی صورت حال میں کیونکہ فوری طور پر اس جرم میں شریک مرد کی شناخت یا علم نہیں ہوتا اس لئے صرف عورت ہی قانون کی گرفت میں آتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس صورت حال پر زعفران بی بی کیس (PLD 2000 FSC۔1) میں واضح اور دو ٹوک فیصلہ دیا ہے۔ جس کامفہوم حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے :
”اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ خاتون جس کی رسائی اس دوران اپنے شوہر تک نہیں تھی، حاملہ پائی جاتی ہے اور یہ موقف اختیار کرتی ہے کہ یہ حمل زنا بالجبر کی وجہ سے قرار