کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 21
گیری‘ سے محروم ہوجاتاہے۔ اور وہ یہ کہ بہت سے عیسائی ممالک میں بھی ’روشن خیال‘ عیسائی فرقوں نے طلاق کے قانون میں اوپر بیان کردہ واحد و جہ میں وسعت پیدا کرلی ہے اور اب خاوند پر زنا کاری کا جھوٹایا سچا الزام لگائے بغیر متعدد دیگر موجبات کی بنا پر بھی عدالتوں کے ذریعے خاوند سے قانونی علیحدگی کا حکم نامہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پانچواں اعتراض:اسلامی قوانین کااطلاق مسلمانوں پر ہونا چاہئے، غیر مسلموں پر ان کا اطلاق درست نہیں ہے۔
یہ اعتراض خود بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں قابل استرداد ہے۔کسی بھی ملک میں رائج قوانین کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔ ایک شخصی قانون جو مختلف طبقات کے دینی اور مذہبی عقائد کی روشنی میں ان پر لاگو ہوتا ہے مثلاً شادی ، طلاق، وصیت، ولایت اور وراثت وغیرہ سے متعلق قوانین اور دوسرے عمومی قوانین جو فوجداری اور دیگر دیوانی معاملات کو نپٹانے کا طریقہ کار اور ضوابط کااحاطہ کرتے ہیں ۔ پوری دنیا میں یہ ایک مسلمہ قانونی اُصول ہے کہ ہر ملک میں آباد مختلف مذاہب کے لوگوں کے شخصی معاملات کافیصلہ تو ان کے شخصی قانون کے مطابق کیا جاتاہے لیکن دوسرے تمام ملکی قوانین جو امن و امان برقرار رکھنے یا جرائم کی سزاوٴں سے متعلق ہیں ، ان پر اُن ممالک میں اکثریتی آبادی کے رائج کردہ قوانین کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر قتل کے کسی مقدمے میں کوئی مسلمان کسی مغربی غیر مسلم ملک میں یہ اصرار نہیں کرسکتاکہ عدالت قصاص اور دیت کے اسلامی قانون کے مطابق اس کے کیس کا فیصلہ کرے، نہ کبھی کسی اسلامی ملک نے مغربی دنیا سے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔ بالکل اسی طرح مغربی دنیا کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک میں قرآن و سنت کی روشنی میں وضع کردہ، وہاں کے لوگوں کے دین عقائد سے ہم آہنگ قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرے یا اسے ظالمانہ قرار دے۔
چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے زعفران بی بی کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ
”حدود قوانین ایک اسلامی ریاست کے شہریوں کو بلا تفریق جنس، دولت، مذہب، ذات، رنگ و زبان وغیرہ پرامن زندگی گزارنے کی ضمانت مہیا کرتے ہیں اور ان کے بنیاد ی انسانی