کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 20
جو عیسائی مذہب میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔
اس اعتراض کا لب ِلباب یہ ہے کہ عیسائیوں کے قانونِ طلاق کی دفعہ 10 عیسائی میاں بیوی میں طلاق کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ البتہ زوجین کے درمیان طلاق صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب بیوی اپنے خاوند پر نہ صرف یہ کہ زنا کاری کا الزام لگائے بلکہ اسے ثابت بھی کرے۔ حدود قوانین کے ناقدین کاکہنا ہے کہ عیسائی قانون کے تحت اگر بیوی کا موقف درست ثابت ہوجائے تو خاوند کو لامحالہ حدود آرڈیننس کے تحت زنا کی سزا کاسامنا کرنے پڑے گا اور اگر بیوی یہ الزام ثابت نہ کرسکے تو اس کے خلاف قذف کا مقدمہ قائم ہوجائے گا۔ اس طرح حدود قوانین عیسائی عورتوں کے طلاق کے قانون میں مداخلت اور رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں ۔ کمیشن آف انکوائری فار وومن پاکستان کی رپورٹ 1997ء کے صفحہ 74 پر بھی اس اعتراض کو پرزور طریقے سے پیش کیاگیا ہے۔
جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے ،بظاہر تو اس میں وزن دکھائی دیتا ہے لیکن ذرا گھری نظر سے معاملات کاتجزیہ کیا جائے تو متعلقہ حدود قوانین کا پلڑا عیسائی زوجین کے حق میں سراسر جھکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عیسائیوں کے قانونِ طلاق میں یہ وضاحت موجود ہے کہ طلاق صرف اس صورت میں منعقد ہوگی جب بیوی شوہر کے خلاف زنا کا نہ صرف الزام لگائے بلکہ اسے ثابت بھی کرکے دکھائے۔ باالفاظ دیگر طلاق صرف اسی وقت موٴثر ہوگی جب شوہر پر زنا کاالزام ثابت ہوجائے۔ یہ بات تو عیسائی بیوی کے حق میں جاتی ہے کہ اگر وہ خاوند پر زناکاری کا الزام ثابت کردے تو طلاق کے ساتھ ساتھ اسے مجرم کو جرمِ زنا کی مروّجہ سزا دلوانے کا استحقاق بھی حاصل ہوجائے۔ اسی طرح حدود قوانین کے ذریعے ایک عیسائی خاوند کو بھی یہ قانون حق حاصل ہوگیا ہے کہ اگر اس کی بیوی اس پر زنا کاری کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگاتی ہے تو وہ اسے اس گھناوٴنے طرزِ عمل پر عدالت کے کٹھرے میں لاسکے۔
حقیقت ِحال یہ ہے کہ حدود قوانین عیسائیوں کے قانونِ طلاق میں مداخلت یا مشکلات پیدا کرنے کے بعد طلاق کے مقدمے کافیصلہ ہوجانے کے بعد مبنی برحق موقف رکھنے والے فریق کو مزید دادرسی کے مواقع مہیا کرتا ہے۔ مذکورہ بالا اعتراض ایک اور بنیاد پر بھی اپنی ’ہمہ