کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 19
میں لانے کا حق رکھتی ہیں ۔ (4) 1979ء میں ایک زنا بالجبر کے ایک مقدمے کافیصلہ تحریر کرتے ہوئے کراچی ہائی کورٹ نے صرف ایک مظلومہ عورت کے بیان کو کافی گردانا اور قرار دیا کہ ”زنا بالجبر کے کیس میں مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے بیان پر ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے۔“ (پی ایل ڈی 1979ء کراچی، صفحہ 147) (5)وفاقی شرعی عدالت نے خود بھی بہت سے مقدمات میں عورتوں کی گواہی پر زنا بالجبر کے ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں ۔ اور عورتوں کو گواہی کے حق کو تسلیم کیاہے اور اس سلسلے میں اسلامی فقہ کے اصولوں پر انحصار کیاہے۔ جس کا ثبوت وفاقی شرعی عدالت کی مندرجہ ذیل نظیر سے ملتا ہے۔ متعلقہ مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا ہے کہ ”حدود و قصاص کی متعین سزاوٴں میں اگر چہ بالعموم فقہا مردوں کی عینی شہادت کو لازم سمجھتے ہیں لیکن حدود سے فروتر تعزیری سزاوٴں میں مردوں کی چشم دید شہادت اور شہادت بالقرائن کو بھی ائمہ سلف نے قابل قبول قرار دیا ہے۔“ (پی ایل ڈی1982 وفاقی شرعی عدالتص 113) جرم زنا سے متعلق قانون کے تحت عورتوں کی گواہی کا حق تسلیم اور مستند ہونے سے متعلق اور بھی بہت سے فیصلہ جات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا مختصر بحث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ یہ کہنا غیردرست ہے کہ زنا سے متعلق جرائم کے مقدمات میں عورت کو گواہی کے حق سے محروم کردیاگیاہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر تزکیہ الشہود کے معیار پر پورا اترنے والے چار مرد گواہ موجود نہ ہوں تو ملزم کوسنگسار کے ذریعے سزاے موت اور کوڑوں کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ البتہ عورتوں سمیت دیگر گواہوں کی شہادت پر اسے دس سے پچیس سال تک قید سخت اور جرمانے کی سزا سنائی جاسکتی ہے اور یہ سزا اس سزا سے دوگنا ہے جو سابقہ قانون میں تجویز کی گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حدود قوانین میں عورت کو گواہی کے حق سے محروم نہیں کیاگیاہے بلکہ ان قوانین کے توسط سے ایک عورت کی گواہی پر مجرم کو سابقہ قانون کی نسبت دوگنا زیادہ سزا کے مواقع میسر آگئے ہیں ۔ چوتھا اعتراض:حد زنا اور قذف کے قوانین عیسائیوں کے ازدواجی قانون سے متصادم ہیں