کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 18
کا باعث بنتا ہے۔ زنا بالجبر کا معاملہ البتہ زنا بالرضا سے مختلف ہے۔ اس جرم میں عورت صریحاً زیادتی کا نشانہ بنتی ہے جن حالات میں یہ جرم سرزد ہوتا ہے ان میں عام طور پر چار غیر جانبدار مرد گواہوں کا موجود ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ان تمام معاملات اور عورتوں کی گواہی کے حوالے اعلیٰ عدالتوں کے بہت سے فیصلے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ قانونِ شہادت مجریہ 1984ء اورعدالتی فیصلہ جات کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ این جی اوز کا یہ پروپیگنڈا کہ حد زنا آرڈیننس کے ذریعے عورتوں کو گواہی کے حق سے محروم کردیا ہے، درست نہیں ہے۔ (1)قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 17 کی ذیلی دفعہ’ 2 بی‘ میں صراحت کی گئی ہے کہ ”حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ (یاد رہے کہ یہ سزا 10 سے 25 سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)“ (2)عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وھ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت عالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے : ”قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔“ (1992ء پاکستان کریمنل لاء جرنل صفحہ1520) (3) سپریم کورٹ، آزادکشمیر نے قصاص اور زنا کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اُصول بیان کیا : ”قصاص اور نفاذِ حدود کے مقدمات میں بھی چار مرد گواہوں کی شہادت کے بعد مزید شہادت کے لئے عورتوں کی گواہی میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔“ (پی ایل ڈی1979ء سپریم کورٹ (آزاد جموں کشمیر) صفحہ 56) اس فیصلے سے یہ امر واضح ہوتاہے کہ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ حد زنا کے کسی مقدمہ میں چار مرد گواہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یا درست گواہی نہیں دے رہے ہیں تو واقعہ کی چشم دید گواہ عورتیں بھی عدالت کے روبرو گواہی دے سکتی ہیں ۔ اور اصل حقائق کو عدالت کے علم