کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 17
تیسرا اعتراض: حدود زنا آرڈیننس میں عورت کو گواہی سے محروم کردیا گیا ہے۔حد زنا آرڈیننس پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے ذریعے عورت کو گواہی دینے سے محروم کردیا گیا۔ اگر کسی عورت کے ساتھ کسی ایسی جگہ زیادتی کی جاتی ہے جہاں کوئی مرد گواہ موجود نہ ہو اور صرف عورتیں ہی عورتیں ہوں تو موجودہ قانون کے تحت مجرم سزا سے صاف بچ جائے گا کیونکہ چشم دید گواہ خواتین کی گواہی قابل قبول نہ ہوگی۔ زنا آرڈیننس پر یہ اعتراض کمیشن آف انکوائری فار ومن (پاکستان) نے اپنی ایک رپورٹ (اگست 1997ء) میں اُٹھایا تھا۔ یہ اعتراض حد زنا آرڈیننس کی دفعہ 8 سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زنا یا زنا بالجبر کا ثبوت جس میں حد جاری ہوگی، مندرجہ ذیل صورتوں میں کسی ایک صور ت میں ہوسکتا ہے: ا) ملزم کسی بااختیار عدالت کے سامنے اس جرم کے ارتکاب کا اعتراف کرتا ہے ۔ یا ب) کم از کم چار مسلمان گواہ جن کے بارے میں عدالت کو اطمینان ہو کہ وہ تزکیہ الشہود کی شرائط پورا کرتے ہیں ، صادق ہیں اور کبائر سے اجتناب کرتے ہیں ، گواہی دیں کہ وہ زنا کے ارتکاب کے عینی شاہد ہیں ۔ اگر ملزم غیر مسلم ہو تو چشم دید گواھ بھی غیر مسلم ہوسکتے ہیں ۔ ثبوتِ جرم زنا کے لئے چار گواہوں کی شرط قرآن حکیم کی سورۃ النساء آیت نمبر 15 اور سورۃ نور کی آیت نمبر 4 کی بنیاد پر قانون میں شامل کی گئی ہے۔ بادی النظر میں دفعہ 8 کے مطالعہ سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ عورتوں کو گواہی کے حق سے محروم کرنے کی حد تک یہ ایک امتیازی قانون ہے لیکن اس قانون کے پردے میں چھپی ہوئی مصلحت پر غور کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کی عزت و تکریم کے پیش نظر ہے۔ اور عصر جدید میں جب جرح کے دوران چشم دید خواتین سے جرم زنا سے متعلق لوازمات اور جرم کے عمل سے متعلق مخصوص سوالات عزت دار مسلمان خواتین کے لئے ذہنی کوفت کا سبب بن سکتے ہیں اور بھری عدالت میں درست واقعات کے واضح بیان میں ہچکچاہٹ کا موجب بن سکتے ہیں ۔ اس طرح خواتین کی فطری شرم و حیا کی وجہ سے مجرم سزا سے بچ سکتا ہے۔ نیز یہ کہ زنا بالرضا کی صورت میں چار مرد گواہوں کا میسر نہ آنا عورتوں کو سزا سے بچانے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوتا ہے اور ان کے لئے سہولت