کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 16
حوالے سے قرآنی اور اسلامی نقطہ نگاہ کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ قوانین پر نظرثانی سے کسی ایمان رکھنے والے مسلمان کو اعتراض نہیں ہوسکتا… یعنی نظرثانی سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ قرآن و سنت میں موجود حدود کے احکامات پر بھی نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ نظرثانی آرڈیننس میں دیئے گئے الفاظ کی ہونی چاہئے قرآنی احکامات کی نہیں ۔ اور نظرثانی کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ نظرثانی قرآن و سنت کے احکام کے اندر رہ کر ہو۔ ڈاکٹر زمان چونکہ واجدہ رضوی کمیشن میں بھی کسی نہ کسی حیثیت سے شامل تھے۔ اس لئے ان کے اس بیان کو مسترد کرنا مشکل ہے کہ واجدہ رضوی کی رپورٹ سرے سے غیر قانونی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ واجدہ رضوی نے طے شدہ اُصولوں اور طریقہ کار کو ترک کرکے ایک سازشی انداز اپنایا اور کراچی میں کمیشن کا ایک اجلاس منعقد کرکے ارکان سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کس بات کے حق میں ہیں ؟ اس قانون کو منسوخ کیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے۔ اس کے بیس روز بعد انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ ارکان کی اکثریت نے یہ قانون منسوخ کرنے کے حق میں رائے دے دی ہے۔ اس طرح انہوں نے ایک نئی رپورٹ تیار کی جس کا اس مسئلے پر پہلے سے تیار کردہ ڈرافٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس نئی رپورٹ میں حدود قوانین کی منسوخی کی سفارش کی گئی تھی اور ترامیم کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کو کمیشن کی رپورٹ قرار دے کروزیراعظم اور صدر کو بھجوایا گیا۔ دراصل اسپیشل کمیٹی کا اجلاس اور اس کے بعد نیشنل کمیشن برائے خواتین کا اجلاس دونوں غیر آئینی تھے۔ کیونکہ اس دوران کمیشن کے ارکان کی اکثریت کی میعادِ تقرری تین سال گزرنے پر پوری ہوچکی تھی اور وہ لوگ کمیشن کے ممبر ہی نہیں رہے تھے۔ صرف واجدہ رضوی اور دو ایک خواتین ایسی تھیں جو خالی نشستوں پر نامزد ہوئی تھیں اور ان کی مدتِ تقرری ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان جیسے معتبر گھر کے بھیدی کے انکشافات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کی حمایت کا حدود اربعہ کیا ہے اور واجدہ رضوی کمیشن کی طرف سے کی جانے والی سفارشات کی قانونی حیثیت کیا ہے؟