کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 15
کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ نہ تو حدود آرڈیننس فردِ واحد کی ذ ہنی اختراع ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کی سند ِتوثیق سے محروم ہے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ یہ آرڈیننس ایک باضابطہ اور مستقل قانون کی حیثیت سے نافذ العمل ہے اور اس حوالے سے اس پر وارد کئے جانے والے اعتراضات وزن اور عقل سے خالی ہیں تو بے جان نہ ہوگا۔ مذکورہ بالا حقائق کی تصدیق حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سابق چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان نے بھی کی۔ انہوں نے روزنامہ ’انصاف‘ لاہور (موٴرخہ 28 مئی 2004ء کو)انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طویل غورو خوض کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کا اوّلین مسودہ تیار کیا تھا اور پھر قاعدے کے عین مطابق وزارتِ قانون پاکستان نے اس کا حتمی مسودہ مرتب کیا تھا۔
دوسرا اعتراض : خود اسلامی نظریاتی کونسل حدود قوانین میں ترامیم کی ضرورت کو تسلیم کرچکی ہے اور واجدہ رضوی کمیشن کے کچھ ارکان بھی ترامیم کے حق میں رائے دے چکے ہیں ۔ لہٰذا ان قوانین میں تبدیلی اور ترمیم کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں ہے۔
یہ اعتراض بادی النظر میں درست دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر اسلامی نظریاتی کونسل اور واجدہ رضوی کمیشن کے ارکان کی آرا کا بغورتجزیہ کیا جائے تو اصل صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک پورا اجلاس اس موضوع کے لئے وقف کیا تھا۔ اور اس اجلاس سے قبل ایک کمیٹی بھی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی میں ممتاز علما، نامور ماہرین قانون کے علاوہ بیرونِ ملک سے بھی سکالر حضرات شامل کئے گئے تھے۔ اس کمیٹی نے ایک ورکنگ پیپر تیار کیا۔ اس ورکنگ پیپر کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل کااجلاس منعقد ہوا۔ اور حدود قوانین کی ایک ایک شق پر بحث کے بعد سفارشات مرتب کرکے حکومت کو ارسال کی گئیں ۔ روزنامہ انصاف لاہور (25/مئی 2004ء) اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان نے اس مسئلے پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ حدود کے احکام ازلی، ابدی اور ناقابل تبدیل ہیں ۔ حدود آرڈیننس میں چونکہ قرآن وسنت کے احکامات کو قانونی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ ایک انسانی کوشش ہے اس لئے اس میں غلطی یا فروگذاشت کے امکان کو سرے سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس