کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 14
آف دی سٹیٹس آف ویمن کی سربراہ جسٹس (ر) واجدہ رضوی نے مرتب کرکے ان کی خدمات میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں حدود قوانین کو فردِ واحد کے نافذ کردہ قوانین قرار دے کر مکمل طور پر قابل تنسیخ ہونے کی سفارش کی گئی تھی۔ لیکن افسوس کہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج، سابق وزیر اور اسلامی سکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اپنی کتاب ’پاکستان میں قوانین کو اسلامیانے کا عمل‘ میں تحریر کیا ہے کہ جناب شریف الدین پیرزادہ، جناب اے کے بروہی، جناب خالد ایم اسحق، جسٹس (ر) اے کے صمدانی، جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ ، جسٹس (ر) صلاح الدین، مولانا ظفر احمد انصاری ، جسٹس (ر) مولانا تقی عثمانی، جسٹس (ر)پیر کرم شاہ الازہری بشمول ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اسلامی نظریاتی کونسل میں مسلسل چودہ ماہ تک بحث و مباحثہ کے بعد سفارشات کو حتمی شکل دی اور ان سفارشات کی بنیاد پر ہی 1979ء میں حدود کے قوانین کا نفاذ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ شام کے سابق سپیکر ڈاکٹر معروف دوالیبی، شام کے معروف سکالر ڈاکٹر مصطفی زرقا اور سوڈان کے سابق اٹارنی جنرل سے بھی رائے لی گئی تھی۔ یاد رہے کہ اس آرڈیننس کے مسودّہ کو عوامی رائے حاصل کرنے کے لئے قانون کے مطابق مشتہر بھی کیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ حدود آرڈیننس منتخب اداروں کی عدم موجودگی میں نافذ کئے گئے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ 1985ء میں جمہوری طور پر منتخب ایوان نے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ان قوانین کو منظور کرلیا تھا۔ اور اس کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے ان قوانین کو برقرار رکھا۔ خود جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد جتنے قانون بنائے وہ خالصتاً فردِ واحد کے بنائے ہوئے قوانین تھے۔ لیکن قومی انتخابات کے نتیجے میں جب اسمبلیاں عالم وجود میں آئیں تو 2003ء میں سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل صاحب نے ریفرنڈم سمیت نافذ کردہ قوانین اور احکامات کی اسمبلی سے توثیق کروالی۔ اب اگر جسٹس (ر) واجدہ رضوی یہ سفارش مرتب کریں کہ جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ قوانین فرد واحد کے وضع کردہ ہیں ، لہٰذا انہیں بہ یک جنبش قلم منسوخ کردینا چاہئے تو اس اعتراض کا جواب حکومت کے پاس کیا ہوگا؟ اس مختصر بحث سے یہ امر روزِ روشن