کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 13
مباشرت میں ملوث ہوگی یا اس نیت سے کسی شادی شدہ یا کسی اور کے زیر ولایت عورت کو چھپا کر رکھتا ہے تو اسے دو سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔“
حد ِزنا آرڈیننس میں مذکورہ دفعہ کے متبادل دفعہ نمبر 16 کا نفاذ کیا گیا ہے۔ دفعہ 16 کے الفاظ حسب ِذیل ہیں :
”اگر کوئی شخص کسی عورت کو اس نیت سے بھلا پھسلا کر لے جاتا ہے کہ وہ کسی شخص سے مباشرت میں ملوث ہوگی یا اس نیت سے کسی عورت کو چھپا کر رکھتا ہے یا قید کرتا ہے تو اسے سات سال تک قید ، 30 کوڑوں تک اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔“
یہ تو تھا ان تبدیلیوں کا اجمالی جائزہ جو حدود قوانین کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں لائی گئی ہیں ۔ اب قوانین کے اطلاق کے طریقہ کار سے متعلق بھی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ حدود قوانین کے اطلاق کے لئے وہی طریقہ کار برقرار رکھا گیا ہے جو ضابطہ فوجداری میں پہلے سے موجود ہے۔ موجودہ قانون کی دفعہ 20 میں اس امر کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی گئی ہے کہ اس ضمن میں بھی ضابطہ فوجداری کا اطلاق کچھ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ ہوگا۔ تاہم موجودہ قانون کے تحت تمام مقدمات سیشن کورٹ میں چلائے جائیں گے اورسیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل وفاقی شرعی عدالت میں کی جاسکے گی۔ دفعہ 21 میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ حدود قوانین کے تحت جس عدالت میں مقدمہ چلے گا یا اپیل کی سماعت ہوگی اس کا جج مسلمان ہوگا۔ تاہم غیر مسلم کی صورت میں جج بھی غیر مسلم ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ سابقہ قانون میں یہ تخصیص موجود نہیں تھی۔
حدود آرڈيننس پر اعتراضات
اب آئیے ایک نظر ان اعتراضات پر ڈالتے ہیں جو حدود قوانین پر وارد کئے جاتے ہیں اور درست صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
پہلا اعتراض:یہ قوانین فرد واحد نے جاری کئے اور ان کا نفاذ غیر جمہوری انداز میں ہوا۔
یہ اعتراض وہ ہے جو خود جنرل پرویز مشرف صاحب بھی متعدد بار اٹھا چکے ہیں ۔ جنرل صاحب نے یہ اعتراض غالباً اس رپورٹ سے اخذ کیا ہے جو ان ہی کے تشکیل کردہ نیشنل کمیشن