کتاب: محدث شماره 280 - صفحہ 10
طرح اگر کوئی شخص مجرمانہ دھمکی دے کر یا اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے یا کسی دوسرے طریقے سے کسی عورت کو مجبور کرتا یا ورغلاتا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجائے یا یہ جانتے ہوئے کہ اس امر کا امکان موجود ہے کہ اسے مجبور کیا جائے گا یا ورغلایا جائے گا کہ کسی کے ساتھ مباشرت کرے، وہ ایسا کرتا ہے تو اسے بھی دس سال تک قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔“ حدودقوانین میں اغوا کی تعریف دفعہ 6 میں بیان کی گئی ہے جو بالکل وہی ہے جو دفعہ 366 تعزیراتِ پاکستان میں وضع کی گئی تھی۔ البتہ حدود قوانین کے تحت اغوا کے جرم کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سابقہ قانون میں اغوا کا جرم ثابت ہوجانے پر دس سال تک قید اور جرمانہ کی سزائیں دی جاسکتی ہیں جبکہ حدود قوانین کے تحت اب یہ سز ا بڑھا کر عمر قید کردی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عدالت کو یہ اختیار بھی تفویض کردیا گیا ہے کہ وہ مجرم کو 30 کوڑے بھی لگوائے اور نقد جرمانہ بھی عائد کرے۔ غیرفطری فعل حدود قوانین میں غیر فطری فعل (لواطت) سے متعلق بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 367 ان قوانین سے قبل اس جرم کا احاطہ کرتی تھی۔ دفعہ 367 میں غیر فطری فعل کی تعریف مندرجہ ذیل مفہوم میں کی گئی تھی : ”اگر کوئی شخص کسی کو اس نیت کے ساتھ اغوا کرتاہے کہ وہ اسے مجروح کرے گا، یا غلام بنائے گا، یا اس کے ساتھ غیر فطری فعل کا مرتکب ہوگا ،یا یہ علم رکھتے ہوئے کہ اس کے ساتھ ایسا عمل ہونے کا امکان ہے، اسے ایسے کسی خطرے میں مبتلا کرتا ہے تو اسے دس سال تک قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔“ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 367 کوختم کرکے اس کی جگہ حدود آرڈیننس میں دفعہ 12 کو شامل کیا گیا ہے۔ جو کہ لگ بھگ مذکورہ بالا مفہوم ہی کی حامل ہے۔ ماسوائے اس کے کہ سابقہ قانون میں اس جرم کی سزا دس سال تک قید اور جرمانہ تھی۔ جبکہ موجودہ قانون میں اس سزا کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 25 سال قید بامشقت اور جرمانہ تک بڑھ دیا گیا ہے اور