کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 96
اور موقع پرستانہ ذہنيت نے سياسى اور اقتصادى ہنگامى حالات كے پيش نظر اسے لبرل قدروں كو ترك كردينے پر مجبور كرديا۔“
پرويز ہود بهائى كا يہ مضمون ’اسلام، جمہوريت اور پاكستان‘ نامى كتاب ميں شامل ہے جسے ائر مارشل (ر) اصغرخان نے 1999ء ميں ترتيب دے كر شائع كيا۔ اس وقت تك ابهى نوازشريف كى حكومت ہى تهى۔ اس كتاب ميں شامل ديگر مضامين بهى سيكولر ازم كى فكر كے عكاس ہيں ۔ نہايت بے باكى سے نظريہٴ پاكستان اور اسلام كے خلاف زہر اُگلا گيا ہے، مگر ہمارے دينى طبقہ كى بے حسى ملاحظہ كيجئے كہ كسى طرف سے اس طرح كى شرانگيز كتب كا موٴثر محاكمہ نہيں كيا گيا۔ ارشاد حقانى صاحب نے روزنامہ جنگ ميں اس كتاب پر ’ريويو‘ لكها، مگر اس ميں انہوں نے بهى اسلامى نقطہ نگاہ سے اس كتاب پر تنقيد نہيں كى، بلكہ بعض جگہوں پر تو ان كى تنقيد سيكولر ازم كى تائيد كرتى نظر آتى ہے۔ راقم الحروف نے ارشاد حقانى صاحب كے مضمون كے جواب ميں مفصل تبصرہ ارسال كيا تها، جو شائع نہ كيا گيا۔
پرويز ہود بهائى جو تعلیمى مشاورتى بورڈ كے ركن ہيں ، ان كے خيالات مندرجہ بالا سطور ميں پيش كئے گئے ہيں ۔ يہ خيالات انہوں نے تعلیمى مشاورتى بورڈ كا ركن بننے سے پہلے پيش كئے تهے۔ سال2001ء ميں وہ انگريزى اخبارات ميں تواتر كے ساتھ انہى خيالات كا اظہار كرتے رہے ہيں ۔ اس كے علاوہ اين جى اوز نے اپنے لٹريچر ميں بهى بے حد وسيع پيمانے پرنظريہٴ پاكستان كى مخالفت كى مہم برپا كئے ركهى۔ عاصمہ جہانگير كا انسانى حقوق كميشن ہو، اصغر خان كى سنگى فاؤنڈيشن ہو، عورت فاؤنڈيشن ہويا يورپى ایجنٹوں كى كوئى قابل ذكر اين جى اوز، آپ ان كا لٹريچر اُٹها لیجئے، اس ميں وہى خيالات مليں گے جس كى جھلك پرويز ہود بهائى كے مضامين سے دكهائى گئى ہے۔ ہمارى دينى جماعتیں اين جى اوز كے خلا ف اخبارات ميں جارحانہ بيان ديتى رہتى ہيں اور فى نفسہ یہ ايك قابل تعريف اقدام ہے۔ مگران كى جانب سے علمى سطح پر اس زہريلے پراپيگنڈہ كا توڑ بهى پيش كرنا چاہئے۔ انہيں اسلام دشمن سيكولر طبقہ كى خطرناك پيش قدمى پر گهرى نگاہ ركھنى چاہئے۔ جہاں كہيں اصلاحات كے نام پرسيكولر ازم كے