کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 95
ڈاكٹر پرويز ہود ’نصابى كتابوں ميں اسلام كارى‘ كے زير عنوان مضمون ميں تحرير كرتے ہيں : ”مطالعہ پاكستان كى نصابى كتابوں كا مركزى موضوع ’اسلامائزيشن‘ ہے۔ تقسيم كے بعد كى صرف تين باتيں تفصیل كے ساتھ بيان كى گئى ہيں ۔ اولاً وہ 1949ء كى قراردادِ مقاصد كو پيش كرتى ہيں جس نے رياست پاكستان كى حاكميت ِاعلىٰ اللہ كو دى ہے اور جس نے مختلف شہرى حقوق كى صورت ميں مسلمانوں كو غير مسلمانوں سے جدا كرديا ہے۔“ اس مضمون ميں وہ ايك اور جگہ لكهتے ہيں : ”نئى نصابى كتابوں ميں سماجى انصاف پر زور دينے كے برعكس اسلام كے رسمى پہلوؤں پر زيادہ زور ديا گيا ہے۔ سائنس اور سيكولر تعليم كو سخت مشكوك بنا ديا گيا ہے۔ ايك كتاب كے مطابق جديد تعليم سے دور رہنا چاہئے، اسلئے كہ يہ الحاد اور مادّيت كى طرف لے جاتى ہے۔“ ڈاكٹر پرويز ہود بهائى نے مذكورہ بات لكھتے ہوئے كسى كتاب كا حوالہ نہيں ديا۔ يہ محض اس كے ذہن كى افترا پردازى اور شرپسندى ہے۔ ورنہ كسى بهى نصابى كتاب ميں جديد تعليم سے دور رہنے كى تلقین نہيں كى گئى ہے…پاكستان ميں اقلیتوں كو تمام حقوق حاصل ہيں ، مگر قاديانى ہميشہ پراپيگنڈہ كرتے ہيں كہ ان كے حقوق كى پامالى كى جارہى ہے۔ پرويز ہودبهى اس قاديانى سوچ كے اظہار سے باز نہ رہ سكے، لكهتے ہيں : ”نئى نصابى كتابوں ميں اسلام كو عبادتى رسوم كا مجموعہ بنانے پر زور دينے كے ساتھ بعض غير مسلم فرقوں كے خلاف جذبات كو شعورى طور پر بهڑكايا گيا ہے۔ خاص طور پر ہندوؤں اور قاديانيوں كے خلاف۔“ اس بیہودہ الزام تراشى كى تائيد ميں پرويز ہود بهائى نے نصابى كتب ميں سے ايك بهى مثال پيش نہيں كى جس ميں قاديانيوں كے خلاف جذبات كو شعورى طو رپر بهڑكايا گيا ہو۔ اس مضمون كے آخر ميں وہ سيكولر حكمرانوں كى كوتاہى كى نشاندہى اس انداز ميں كرتے ہيں : ”مغربى طرزِ زندگى ركهنے والا آزاد خيال طبقہ جس نے سياسى اقتدار برطانيہ سے جانشين كے طور پر ليا تها، اگر اس نے تعليم كو بنيادى طور پر جديد اور سيكولر كردار ميں ڈهال ديا ہوتا تو اس سے آخر كار ايك جديد اور سيكولر ذہن ركهنے والى شہريت جنم ليتى۔ ليكن اس طبقہ كى خود غرضانہ