کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 93
پس منظر بهى ركھتى ہے۔ اس بورڈ كے ايك متحرك ركن ’ڈاكٹر پرويز ہود بهائى‘ ہيں ۔ ’پرويز ہود بهائى‘ اگرچہ قائداعظم يونيورسٹى ميں فزكس كے پروفيسر ہيں ، مگر فكرى اعتبار سے متعصّب قاديانى اور نظريہٴ پاكستان كے زبردست مخالف ہيں ۔ اسلام آبادميں پاكستان كے ايٹمى پروگرام كے خلاف چند برس قبل جن لوگوں نے جلوس نكالے اور ڈاكٹر عبدالقدير خان كى قبر بنا كر ان كى توہين كى، ان كے فكرى قائدين ميں نماياں ترين نام پرويز ہود بهائى كا ہے۔ اسى قاديانى پروفيسر نے ڈاكٹر مبشر حسن اور روزنامہ ’نيوز‘ كے امتياز عالم كے ساتھ مل كر ’پاك انڈيا پيپلزفورم‘ تشكيل ديا ہے جو پاكستان مخالف سرگرميوں ميں بہت متحرك رہا ہے۔
ڈاكٹر پرويز ہود بهائى گذشتہ كئى برسوں سے قائداعظم يونيورسٹى ميں نوجوانوں كو اسلام سے برگشتہ كرنے كى مذموم جدوجہد ميں مصروف ہے۔ اس كے خلاف اسلام پسند طلبہ نے كئى بار احتجاجى جلوس بهى نكالے، مگر چونكہ اس كے ہاتھ بہت لمبے ہيں اور اس كا اثر و رسوخ امريكى سفارتخانے تك بهى ہے، اس لئے ابهى تك وہ تدريسى فرائض بدستور انجام دے رہے ہيں ۔
ڈاكٹر پرويز بهائى اگرچہ فزكس كے پروفيسر ہيں ، مگر گذشتہ كئى برسوں سے وہ پاكستان ميں تعلیمى نصاب كى اصلاح كے بارے ميں ’تحقیقى‘ مقالہ جات تحرير كرتے رہے ہيں ۔ وہ پاكستان ميں تعلیمى نصاب كو اسلامى تعلیمات كے مطابق ڈهالنے كے زبردست ناقد رہے ہيں ۔ وہ نہايت تواتر سے اپنى اس پريشانى كا اظہار كرتے رہتے ہيں كہ آخر نظريہٴ پاكستان اور اسلام كو نصابى كتب كا حصہ كيوں بنايا گيا ہے۔ ان كے ايك مقالہ كا عنوان ہے ’پاكستان كى تاريخ كو مسخ كرنے كا عمل‘ …تمام قاديانى اور سيكولر دانشوروں كى طرح پرويز ہود بهائى بهى نظريہٴ پاكستان كے فروغ كو صدر ضياء الحق كى ’بدعت‘ قرار ديتے ہيں ۔ مذكورہ مضمون ميں وہ لكھتے ہيں :
”1977ء كے بعد كى ’تاريخ پاكستان‘ كى تمام نصابى كتابوں ميں ’نظريہٴ پاكستان‘ كے فقرے نے مركزى اہميت كى حيثيت حاصل كرركهى ہے۔ نظريہٴ پاكستان كا فقرہ ہر گفتگو ميں نفوذ كرگياہے۔ ہر بحث ميں حوالہ كا كام ديتا ہے اور تمام كتابوں ميں آغاز ہى پر وہ نظر آجاتا ہے۔ مثلاً لكها جاتا ہے كہ ”ايك نظرياتى ملك كے شہرى ہونے كى حيثيت سے پہلے اس اساس كا جاننا