کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 92
فيصلے كو سيكولر ازم كى جانب ايك پيش قدمى قرار ديا ہے۔ دينى جماعتیں عنقريب ايك كنونشن طلب كريں گى جس ميں اس فيصلے كے خلاف متفقہ لائحہ عمل طے كرنے كا فيصلہ كيا جائے گا۔ (نوائے وقت، 8 جنورى 2001ء)
امير جماعت اسلامى قاضى حسين احمد نے اس خبرپر اپنا ردّعمل ظاہر كرتے ہوئے كہا كہ وزيرتعليم نے امريكہ كے حكم پر قرآن كريم كے ترجمہ كو ميٹرك كے نصاب سے ختم كرديا ہے۔ يہ لوگ قرآن كى روشنى كو معاشرے ميں پهيلتے نہيں ديكهنا چاہتے۔ ( ’انصاف‘ 8؍ جنورى2001ء)
روزنامہ نوائے وقت نے اپنى خبرميں يہ وضاحت بهى كى ہے كہ حكومت نے امريكى افسروں كو بتايا تها كہ اس نے ماضى ميں ہونے والے ميٹرك كے امتحانات ميں سے قرآن مجيد كے ترجمے والا سوال ختم كرديا ہے اور اس كى جگہ قرآن مجيد ناظرہ كو امتحان كا حصہ بنايا جائے گا۔ تاہم تمام تعلیمى بورڈوں نے حكومت كے فيصلے اور حكم نامے پر عمل درآمد كرنے سے معذورى كا اظہار كيا ہے۔
پاكستان ميں تعلیمى نصاب كو وضع كرنے يا اس ميں ترميم لانے كا ايك مفصل طریقہ كار اور باقاعدہ قواعد و ضوابط موجود ہيں ۔ اس طرح كے فيصلے راتوں رات نہيں كئے جاسكتے۔ جب سے موجودہ حكومت برسراقدار آئى ہے، اس نے مختلف شعبہ جات ميں اصلاحات متعارف كرانے كے كام كا بيڑہ اٹهايا ہے، تعلیمى شعبہ ميں اصلاحات متعارف كرانے كے لئے باقاعدہ ايك ’تعلیمى مشاورتى بورڈ‘ تشكيل ديا گيا جس كے چيئرمين وفاقى وزيرتعليم ہيں ۔اس بورڈ كے اجلاس باقاعدگى سے منعقد ہوتے رہتے ہيں ۔ جن ميں سے اہم اجلاس جنرل پرويز مشرف كى زيرصدارت 31؍ اكتوبر 2000ء كو اسلام آباد ميں منعقد ہوا جس ميں صوبائى گورنروں اور صوبائى وزراے تعليم نے شركت كى۔ اس اجلاس ميں وفاقى وزيرتعليم نے ’تعلیمى شعبہ ميں اصلاحات‘ كے عنوان سے ايك ايكشن پلان پيش كيا۔
مذكورہ تعلیمى مشاورتى بورڈ ميں جن اَفراد كو بطور ركن نامزد كيا گيا ، ان كى اكثريت سيكولر اور اشتراكى نظريات كى حامل ہونے كے علاوہ مغربى تہذيب كى علمبردار اين جى اوز سے وابستگى كا