کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 89
ميں شامل مسلمان ليڈروں سے ہم نے مسلسل كئى ماہ تك بڑا تفصيلى اور دور رس مكالمہ جارى ركها ہے۔ اس كونسل كے قيام كامقصد ہى اسلام اور فرانسيسى حكومت كے درميان اچهے تعلقات كو استوار ركهنا ہے۔ وزير موصوف نے كہا كہ اسلام كا فرانس ميں حقيقى طور پر ايك اہم مقام ہے اور وہاں اس مذہب كا احترام كيا جاتا ہے۔ فرانس كى قومى پاليسى كا مركزى نقطہ بهى يہى ہے كہ مذاہب، اعتقادات اور دينى شعائر كے معاملے ميں غير جانبدار رہا جائے اور ہم اسى غير جانبدارى كى روايت كو فرانس ميں بسنے والے تمام شہريوں كے درميان مساوات كے اُصولوں كے مطابق آگے بڑهانا چاہتے ہيں ۔ فرانس ميں مذہبى علامات پر پابندى كا جو قانون وضع كيا جارہا ہے، وہ اسى تاريخى روايت كا حصہ ہے۔ يہ كہنا بالكل غلط ہے كہ اس قانون كا نشانہ بطورِ خاص اسلام ہے اور دراصل يہ پابندى صرف حجاب كے خلاف لگائى جارہى ہے۔
وزيرموصوف نے زور دے كر كہا كہ ميں يہ وضاحت كرنا ضرورى سمجھتا ہوں كہ اسكارف پہننے پر مكمل پابندى ہرگز عائد نہيں كى جارہى ہے۔ يہ پابندى صرف سركارى سكولوں اور حكومتى ملازمين پر عائد ہوگى اور وہ بهى صرف اس وقت تك جب تك طالبات سكول ميں پڑهيں گى ياپهر مسلم ملازم خواتين كے دفاتر كے اوقات تك محدود رہے گى۔ پرائيويٹ سكول، يونيورسٹياں ، سركارى عمارت اور مقامات پريہ پابندى غير موٴثر رہے گى اور مسلمان طالبات اور خواتين حسب ِمعمول حجاب استعمال كرنے ميں پورى طرح آزاد ہوں گى۔
فرانسيسى اخبار ’لى فگارو‘ ہى نے اپنے ايك اور تبصرے ميں لكها ہے جب حجاب پر پابندى كا قانون پارليمنٹ ميں پيش ہوگا تو اس پر سياسى اختلافِ رائے كى وجہ سے عين ممكن ہے كہ حكومت ميں شامل سينئررائٹ اركان اس كى حمايت يا مخالفت ميں تين يا چارگروہوں ميں بٹ جائيں ۔اگرچہ حجاب كے معاملے پر وسيع پيمانے كى بحث مذہبى جذبات كو ٹھنڈا كرنے لئے اہم ہے اور سيكولرازم كى برترى كے لئے ضرورى ہے۔ ليكن حجاب پر پابندى كے مجوزہ قانون كى مخالفت كرنے والى قوتيں بهى بہت مضبوط ہيں اور اگر يہ سب ايك جگہ جمع ہوگئيں تو فرانسيسى سياست ميں موٴثر كردار ادا كرنے والے ’فار رائٹ نيشنل فرنٹ‘ كے لئے يہ ايك سياسى تحفہ ہوگا۔
اس سارے پس منظر سے ايك اور اہم سياسى پہلو بهى اُبهرتا ہے۔ پورى دنيا جانتى ہے كہ