کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 88
حجاب پر پابندى كى مخالفت فرانس كے ايك مقتد اخبار ’لى فگارو‘ نے فرورى 2004ء كى اپنى ايك اشاعت ميں صورتِ حال كا تجزيہ كرتے ہوئے لكها ہے كہ فرانس كے اہم وزير نے اپنا نام ظاہرنہ كرنے كى شرط پر كہا ہے كہ حجاب پر پابندى سے فرانس كى خارجہ پاليسى پر برے اثرات مرتب ہوں گے اور اگر ايسا كيا گيا تو حكومت كى جانب سے يہ ايك غلط اقدام ہوگا كيونكہ بين الاقوامى تناظر ميں يہ مسئلہ انتہائى حساس نوعيت اختياركرچكاہے۔ اسى طرح جرمنى كے ايك معتبر سياسى راہ نما رونڈز چاوٴ نے بعض حكومتى حلقوں كى اس رائے كو خوش آئند قرار ديا ہے، كہ حكومت كو يہ زيب نہيں ديتا كہ وہ دوسروں كے مذہبى شعائر كے درست يا نادرست ہونے كا فيصلہ كرتى پهرے يا پهر كسى مذہبى روايت سے امتيازى سلوك كو روا ركهے۔ ’لى فگارو‘ نے لكها ہے كہ اگر جرمنى كے صدر اس اصول كو اپناتے ہيں تو انہيں اگرچہ حجاب مخالف قوتوں كى جانب سے تنقيد كانشانہ بننا پڑے گا ليكن وہ راست باز اور بہادر رہنما كى حيثيت سے تادير ياد ركهے جائيں گے۔ جرمنى ہى كے روزنامہ Die Welt كا تجزيہ ہے كہ اگر يہ مان بهى ليا جائے كہ صليب انسانى آزادى اور امن كا نشان ہے اور حجاب محض ايك دينى اور سياسى علامت ہے تو بهى حجاب پر پابندى سے معاشرے ميں ايك مكمل بے دين سيكولر ازم كے پهيلاوٴ كى راہ ہموار ہوجائے گى۔ اس لحاظ سے ان سياسى قوتوں كا استدلال زيادہ بہتر اور مضبوط دكهائى ديتا ہے، جو حجاب پر پابندى كى مخالفت كررہى ہيں ۔ بہ نسبت ان عناصر كے جو جنونى طور پر حجاب مخالفت ميں مہم چلا رہے ہيں ۔ فرانس كے وزيرخارجہ جنورى 2004ء كے آخرى ہفتے ميں دبئى كے دورے پر آئے تو اخبار نويسوں نے ان سے حجاب پر پابندى كے حوالے سے سوالات كئے۔ ان سوالات كاجواب ديتے ہوئے وزير موصوف مسٹر ڈويمنى كيوڈى ويلى پن(Dominique De Villepin) نے كہا كہ فرانس ايك جمہوريت نواز ملك ہے اور انسانى حقوق كااحترام اس كے منشور ميں شامل ہے اور ہم نے فرانس ميں مسلم معاملات سے متعلق ايك اعلىٰ اختياراتى كونسل بنا ركهى ہے۔ جس كا نام "Conseil Francais Du Culte Musalman" ہے۔اس كونسل