کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 85
ہيں اور سمجهتے ہيں كہ حجاب پہننے اور اس كى سركارى تقريبات ميں نمائش سے ايك سياسى اسلام اور اس كے غلبے كا تصور اُجاگر ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں گاہے گاہے پاكستان كى بات بهى اب ہونے لگى ہے اور كہا جانے لگا ہے كہ پاكستان بهى اپنى قومى ہوائى سروس پى آئى اے ميں كام كرنے والى خواتين كو دوپٹہ كى پابندى سے آزاد كرنے كے لئے ضوابط تيار كررہا ہے۔حجاب مخالف مہم ميں مصركے مفتى ازہر شيخ محمد سعيدطنطاوى كا ’فتوىٰ‘ بهى شدومد سے پيش كيا جارہاہے جس ميں انہوں نے كہا ہے : ”اسكارف كے خلاف احكامات فرانس كا اندرونى مسئلہ ہے، ہم مداخلت نہيں كرسكتے۔ فرانس كو اپنى مرضى كے مطابق قانون سازى كا حق ہے۔ جو مسلمان خواتين فرانس ميں رہتى ہيں ، وہ اضطرار كى حالت ميں اسكارف چهوڑ سكتى ہيں ۔“ اس كے برعكس رياست ہائے متحدہ امريكہ كے صدر نے فرانس كى حجاب پاليسى كى مخالفت كرتے ہوئے كہا كہ مسلم خواتين كويہ حق ملنا چاہئے كہ وہ اپنے مذہب كے مطابق سر پراسكارف كا استعمال كرسكيں ۔ انہوں نے كہا كہ امريكہ ميں مسلمان خواتين كو اس امر كى آزادى حاصل ہے۔ اگر مذكورہ بالا سارى بحث كو سميٹا جائے تو حاصل كلام يہ ہے كہ تمام مسلمان ممالك كے احتجاج كے باوجود فرانس ميں اس سال ايك ايسا قانون لاگو كيا جارہا ہے جس كے تحت مسلمان طالبات سكولوں ميں اور مسلمان خواتين سركارى دفاتر ميں حاضرى كے دوران حجاب استعمال كرنے كے حق سے محروم ہوجائيں گى۔ اسى سال جرمنى ميں بهى يہ قانون كچھ تبديليوں كے ساتھ روبہ عمل آجائے گا اور غالباً اگلے ايك دو سالوں ميں اس پابندى كا دائرہ ناروے، بلجیم اور سويڈن تك پهيل سكتا ہے۔اب سوال يہ پيداہوتا ہے كہ اس گھمبیر اور سنجيدہ صورت حال ميں كياكيا جائے۔ اور اگر كچھ كرنا ہے تو يہ كون كرے…؟ پس چہ بايد كرد؟ ہمارى رائے ميں مسلمان ممالك كو فرانس اور دوسرے يورپى ممالك كے خلاف كسى تحريك كا آغاز نہيں كرناچاہئے۔ اس اقدام سے حجاب كے خلاف مہم كو حجاب مخالف عناصر آسانى سے