کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 84
موجود ہيں تو مغرب كے ان ممالك پر انگشت نمائى كيوں ؟ جہاں نہ تو مسلمانوں كى حكومت ہے اور نہ ہى ان كا معاشرہ حجاب كو پسنديدگى كى نگاہ سے دیكھتا ہے۔ معترض حلقوں كا كہنا ہے كہ فرانس ميں تو صرف سركارى سكولوں كى حد تك طالبات كو پابند كياجارہا ہے كہ وہ حجاب تر ك كرديں ۔ ليكن ا س كے برعكس شمالى افريقہ كے مسلم ممالك ميں مدارس سے آگے بڑھ كر يونيورسٹيوں تك ميں حجاب پر پابندى عائد ہے۔ مزيد يہ كہ سركارى اور پرائيويٹ دفاتر ميں بهى كسى مسلمان عورت كو حجاب ميں فرائض سرانجام دينے كى اجازت نہيں ہے۔ حد تو يہ ہے باحجاب خواتين كا سركارى ہسپتالوں ميں علاج تك كرنے سے انكار كرديا جاتا ہے۔ عوام سے درخواست كى جاتى ہے كہ ان ٹيكسى كاروں ميں سفر نہ كريں جن كى ڈرائيور باحجاب عورتيں ہيں ۔
فرانس ميں حجاب پر پابندى كے خلاف مسلمان عورتوں نے جلوس نكالے تو فرانسيسى اخبارات نے تحقیقى مضامين شائع كئے اور بے پردہ تيونس كے عنوان سے جلى سرخيوں والے اخبارات عوام ميں مفت تقسيم كئے گئے۔ ان اخبارات نے انكشاف كيا كہ مسلم ملك تيونس كے آئين كى شق نمبر 108 حجاب پر پابندى لاگو كرتى ہے۔ اس شق كى روشنى ميں حجاب والى خواتين كو تعليم، ملازمت اور علاج كے حق سے محروم كرديا جاتاہے۔
اس سلسلے ميں تركى كى مثال بهى بہت نماياں ہے۔ جہاں ملك كى اعلىٰ ترين تعليمى كونسل كے احكامات كے تحت اسكارف پہننے پر پابندياں عائد ہيں اور سكول يونيورسٹى اور سركارى دفاتر ميں خواتين كے لئے حجاب پہننا قانوناً ممنوع ہے۔ اكتوبر 2003ء ميں ہونے والا ايك واقعہ بهى اس سلسلے ميں مثال كے طور پر پيش كيا جارہا ہے۔ جب تركى كے صدر نے حكمران جماعت كے وزرا اور اركان كو دعوت دى۔ ليكن ان وزراء اوراركانِ پارليمنٹ كى بيگمات كو دعوت ميں بلانے سے انكار كرديا جو حجاب كى پابندى كرتى ہيں ۔ اس سلسلے ميں جن باحجاب خواتين كو تركى كے صدر نے نظر انداز كيا۔ ان ميں وزيراعظم اور تركى كے آئينى كورٹ كے چيئرمين جيسى اہم شخصيات كى بیگمات بهى شامل تهيں ۔ صدر نے اپنے اس اقدام كا جواز بتاتے ہوئے كہا كہ صدر سيكولر نظام كى حفاظت كے ذمہ دار ہيں اور آئين ميں درج سيكولرازم كے تحت جمہورى حقوق كے نگہبان