کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 82
مسئلے پر تفصيلى بحث مباحثے كے بعد 16 ميں سے 7 رياستوں نے حجاب پرپابندى لگانے كى حمايت كى۔ جرمنى كے سياسى حلقوں كاكہنا ہے كہ 2004ء كے دوران حجاب پر پابندى كے قانون كو جرمنى كے اكثريتى علاقوں ميں ايكٹ آف پارليمنٹ كے ذريعے نافذ كردياجائے گا۔ اس سے قبل جرمنى كے تيرہ صوبوں ميں سے سات ميں مسلمان اُستانيوں پر پہلے ہى يہ پابندى عائد كى جاچكى ہے كہ وہ تعليمى اداروں ميں حجاب پہن كرنہ آياكريں ۔ جبكہ بہت سے سكولوں ميں طالبات سے بهى كہا جاچكا ہے كہ اگر اُنہيں تعليم جارى ركهنا ہے تو وہ اسكارف پہن كر سكول ميں مت آيا كريں ۔ياد رہے كہ جرمنى كے آئين كے آرٹيكل4 كى رو سے جرمنى ميں رہائش پذير ہر فرد كواپنے مذہبى شعائر كے مطابق زندگى گزارنے كى ضمانت مہيا كى گئى ہے۔
ناروے: ناروے كى حكومت بهى فرانس اور جرمنى كے زيراثر حجاب پر پابندى لگانے كے معاملے كو رفتہ رفتہ آگے بڑها رہى ہے۔ ليكن بنيادى انسانى حقوق كے لئے كام كرنے والى تنظيموں كے دباوٴ كے سبب اس پابندى كو فى الحال تجارتى مراكز اور سپر سٹورز پر كام كرنے والى مسلمان خواتين تك محدود ركهنے پر غور كررہى ہے۔ اس محدود پابندى پر ناروے كے عوام كا ردعمل جاننے اور پركهنے كے بعد مزيد اقدامات كا فيصلہ كيا جائے گا۔ ناروے كے ايك وزير كا بيان اس دباوٴ كا مظہر ہے۔ ان كا كہنا ہے كہ ناروے حكومت مذہب كى بنياد پر امتيازات اجاگر كرنے كے خلاف ہے۔ ليكن جہاں تك حجاب كا معاملہ ہے تو اس كا استعمال بظاہر قابل اعتراض نہيں ہے ليكن اگر اس سے ہائى جين اور انسانى صحت كو كچھ مسائل درپيش ہوں تو حجاب پر پابندى لگائى جاسكتى ہے۔ جہاں تك پرائيويٹ كاروبارى اداروں اور سٹورز كا تعلق ہے تو وزير موصوف نے ان اداروں كى توجہ ناروے كے فوجى قوانين كى جانب مبذول كروائى اور كہا كہ ناروے كى فوجى يونيفارم مذہبى روادارى اور دينى عقائد كے احترام كى آئينہ دار ہے اور اس احترام كو ملحوظ ِخاطر ركهنے كى دفعات فوجى قوانين ميں گذشتہ دس سال سے نہ صرف شامل ہيں بلكہ ان پر كاميابى سے عمل بهى ہورہاہے۔ پرائيويٹ تجارتى اداروں كو اس قانونى روايت سے رہنمائى حاصل كرنى چاہئے۔