کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 80
اس سے قبل جنورى 2004ء كے دوسرے ہفتے ميں براعظم امريكہ اور يورپ كے بہت سے ممالك ميں قائم مسلمان اداروں اور تنظيموں كى طرف سے بهى مربوط اور منظم احتجاجى مظاہرہ ترتيب ديے گئے۔ يہ مظاہرے امريكہ اور كينيڈا ميں زيرتعليم مسلمان طلبا كى سب سے بڑى تنظيم ’مسلم سٹوڈنٹس ايسوسى ايشن‘ كى جانب سے منعقد كئے گئے۔ اس تنظيم كے زيراہتمام واشنگٹن، اٹلانٹا، ہيوسٹن، ميامى، سان فرانسسكو، ٹورنٹو كے علاوہ برطانيہ اور جرمنى كے مختلف شہروں ميں جو مظاہرہ كئے گئے، ان مظاہروں ميں مسلم طلبا كے علاوہ انسانى حقوق اور شہرى آزاديوں كے لئے كام كرنے والى بہت سى مشہور متحرك اور غير مسلم تنظيموں نے بهى شركت كى۔ فرانس سميت دنيا بهر ميں ہونے والے ان مظاہروں كو يكسر نظر انداز كرتے ہوئے فرانس كے صدر شيراك نے برنر سٹازے كميٹى كى مرتب كردہ تجاويز كى پرزور حمايت كى اور كہا كہ انہيں اُميد ہے كہ حكومت ِفرانس آئندہ كيلنڈر سال شروع ہوتے ہوئے ان پابنديوں كو قانونى شكل دے دے گى۔ اس طرح يہودى ٹوپيوں ، بڑى كرسچين صليبوں اور حجاب كا ملبوساتى استعمال غير قانونى قرار پاجائے گا۔ يہ ايك دلچسپ اتفاق ہے كہ 28؍ جنورى 2004ء كو جب پاكستان كى قومى اسمبلى كى منتخب خاتون اركانِ پارليمنٹ فرانسيسى سفارت خانے كے سامنے اسلام آباد ميں حجاب پر پابنديوں كے خلاف يادداشت پيش كررہى تهيں ، عين انہى اوقات كے دوران فرانس ميں پورى فرانسيسى كابينہ ان پابنديوں كى باضابطہ منظورى دے رہى تهى۔ اس منظورى كے بعد 10؍ فرورى كو يہ مسودۂ قانون فرانسيسى پارليمان كے ايوانِ زيريں ميں پيش ہوگا اور وہاں سے پاس ہونے كے بعد آئندہ تعليمى سال سے نافذ العمل ہوگا۔ اسى طرح سكولوں ميں زير تعليم مسلمان طالبات آئندہ سال كے اوائل سے حجاب نہ پہننے كى پابند قرارپائيں گى۔ پابنديوں سے متعلق اس بل كى كابينہ ميں منظورى كے بعد صدر فرانس جيكوٹس شيراك نے تقرير كرتے ہوئے كہا : ”اس بل سے فرانس كے سكولوں كى غير جانبدارى مستحكم ہوگى۔ اس بل كا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے كہ اس كے زير اثر عام زندگى ميں روزمرہ مذہبى علامت كے استعمال كو ممنوع قرار دياجارہا