کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 76
انقلابِ فرانس كے بعد سے فرانسيسى حكومت كا عمومى رويہ تحمل اور فراخ دلى كے اُصولوں پر مشتمل رہا ہے اور ماضى قريب ميں ايك وقت ايسا بهى آيا كہ اگر كسى ادارے يا فرد نے فرانس ميں آباد مسلمانوں كى مذہبى آزادى پر كوئى قدغن لگانے كى كوشش كى تو خود حكومتى سطح پر اس كا نوٹس ليا گيااور اس كوشش كو ناكام بنا ديا۔ فرانس اورمسئلہ حجاب ايك مرتبہ 1989ء ميں اور دوسرى مرتبہ 1992ء ميں فرانس پر كچھ متعصب عناصر نے سيكولر ازم كے نام پر مسلمان طالبات كو حجاب سے منع كرنے كى تحريك شروع كى تو عدليہ سے منسلك اعلىٰ ترين ادارے ’سٹيٹ كونسل‘ نے فيصلہ صادر كيا اور قرار ديا كہ دينى شعائر كااہتمام اور تسلسل فرانس ميں قائم سيكولر نظام سے متصادم نہيں ہے۔ ليكن ايسا لگتا ہے كہ حكومت ميں موجود موٴثر حلقوں نے امريكہ ميں ہونے والے نائن اليون واقعہ كے بعد اپنى رائے بدل لى ہے اور امريكہ نے اسلامى تہذيب كے خلاف درپردہ اور بظاہر دہشت گردى كے خاتمے كے لئے جو مہم آغاز كى تهى، يورپ كے ترقى يافتہ ممالك نے اس ميں اپنا كردار اس طرح ادا كرنے كا فيصلہ كيا ہے۔ كہ وہ يورپ ميں عرصہ دراز سے رہنے والے مسلمانوں كى طرزِ زندگى اور شعائر ِاسلامى پر مبنى اطوار و خصائل كو بدل ڈالنے كى مہم پر چل نكلے ہيں ۔ ا س مہم كا آغاز جرمنى اور فرانس سے كيا گيا ہے۔ 27؍ مارچ 2003ء كو پيرس كے قريب فرانس كى حكمران جماعت كے اركانِ اسمبلى اور وزرا كا ايك خصوصى اجلاس منعقد ہوا جس ميں حجاب اور مذہبى علامات پر پابندى لگانے كے سلسلے ميں غوروخوض كيا گيا۔ اطلاعات كے مطابق حكومتى جماعت كے 90 فيصد اركان نے ايسى پابنديوں كى حمايت كى۔ اجلاس كے بعد اخبار نويسوں سے باتيں كرتے ہوئے فرانس كے وزيراعظم جين پيرى رافرين نے اعلان كيا كہ حكومت سركارى اداروں ميں كام كرنے والى مسلم خواتين پر يہ پابندى عائد كرنے كا پروگرام بنا رہى ہے كہ وہ اپنے فرائض كى انجام دہى كے دوران حجاب ترك كرديں ۔ انہوں نے كہا كہ اس مقصد كے لئے باقاعدہ قانون سازى كى جائے گى تاكہ لباس ميں سياسى تعلق يامذہبى لگاؤ كے