کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 75
برطانيہ ميں اور 30 لاكھ سے زائد جرمنى ميں رہائش پذير ہيں ۔ جبكہ فرانس ميں ان كى آبادى سب سے زيادہ يعنى 60 لاكھ سے بهى متجاوز ہے۔ ان ميں سے 50 فيصد آبادى باضابطہ طور پر فرانس كى شہريت ركھتى ہے۔ فرانس ميں مسلمان يورپ ميں مسلمانوں كى آمد كا سلسلہ اتنا ہى پرانا ہے جتنى كہ خود اسلام كى تاريخ قديم ہے۔ پہلى صدى ہجرى ہى ميں مسلمان يورپ ميں پہنچ گئے تهے۔ اندلس كى فتح كے بعد اسلامى فوج جنوبى فرانس تك اپنى كاميابيوں كے جهنڈے گاڑتى چلى گئى تهى۔ 1492ء ميں سقوطِ غرناطہ كا سانحہ ہوا تو مسلمانوں كى يہاں سے ہجرت كا ايك طويل سلسلہ شروع ہوا۔ اس طرح پندرہويں اور سولہويں صدى تك كم از كم تين لاكھ مسلمان فرانس ميں آبادہوئے۔ ايك طرف مسلمانوں كى فرانس ميں آمد كا يہ سلسلہ تها اور دوسرى جانب خود فرانس نے اپنے قرب و جوار ميں اپنا سياسى اثرورسوخ اور اقتدار قائم كرنے كے لئے اپنى افواج كو استعمال كيا۔ اور بہت سے مسلمان ممالك مثلاً شام، لبنان، الجزائر، مراكش، سينى گال، موريطانيہ، تيونس اور متعدد افريقى ممالك پراپنا تسلط قائم كرليا۔ اس طرح ان ممالك كے مسلمان بهى كثرت سے فرانس ميں آتے جاتے رہے۔ فرانس كى تعمير و ترقى ميں مسلمان محنت كشوں كا كردارنہايت اہم ہے۔ فرانس كى تاريخ گواہ ہے كہ نقل مكانى كركے اس سرزمين پرآنے والے مسلمانوں نے نہ صرف فرانسيسى قوانين كا احترام ملحوظِ خاطر ركها بلكہ فرانس كے قومى مفادات كو پيش نظر ركهتے ہوئے اپنے كردار كا تعين كيا، خود فرانس نے بهى اس سلسلے ميں كشادہ ظرفى كا مظاہرہ كيا اور اپنے ہر شہرى كو دين اور اعتقاد كى آزادى كى ضمانت دى۔ 1917ء ميں فرانس ميں باضابطہ طور پر ايك اسلامى كونسل كا قيام عمل ميں آيا۔ 1926ء كے دوران فرانس كے دارلحكومت پيرس ميں ايك بڑى اور مركزى مسجد تعمير ہوئى۔ 1982ء ميں مسلمانوں كو باقاعدہ قانون سازى كے ذريعہ مسلم تنظيميں اور فلاحى ادارے رجسٹر كروانے كا حق دے ديا گيا۔ جس كے نتيجے ميں فرانس بهر ميں لاتعداد تعلیمى ادارے، تربيتى مراكز اور مسلم ثقافتى سينٹر عالم وجود ميں آگئے جو اب تك كاميابى سے كام كررہے ہيں ۔