کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 74
عصمت، عزت اور وقار كى حفاظت جيسے احكامات كى طرف مبذول كروائى۔ اور ايك دين دار عورت كے اگلى نسلوں پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ كرتے ہوئے مسلمان عورت كو بے توقير كرنے اور اپنى دينى شناختوں سے محرو م كرنے كى صلاح دى۔ نتيجہ يہ كہ ايك سوچے سمجھے منصوبے كے تحت امريكہ اور يورپ ميں رہنے والى مسلمان عورت كو بے توقير كرنے كى سازش تيار ہوئى؛ اس طرح اسلام دشمن مغربى مفكرين كا اسلامى تہذيب كو مٹانے كا وہ خواب تعبير كے سانچے ميں ڈهلنے لگا جو وہ زمانہ قديم سے ديكھ رہے تهے۔
مسلمانوں كے اجتماعى تشخص كو ڈهانے كا فلسفہ
1600 عيسوى ميں اس وقت كے دانشور پيڈرو فرانكيزا نے مسلمانوں كے طرزِحيات اور ان كى تہذيبى اثر پذيرى كو عيسائيت كے لئے ايك خطرہ گردانتے ہوئے تخت ِحكومت پرمتمكن شاہ فلپ سوم كى خدمت ميں ’سفارشات‘ پيش كى تهيں ۔ پيڈرو فرانكيزا كى مرتب كردہ تجاويز ميں كہا گيا تها كہ
”ہميں ہر ممكن اقدام كرتے ہوئے مسلمانوں كو اس بات سے روكنا ہوگا كہ وہ اپنے مردوں كو اپنے دينى رواج كے مطابق دفن كريں ۔ ہميں ان كى زبان، ان كے مذہبى لباس اور حلال گوشت پر ان كے اصرار كو ختم كرنا ہوگا۔ ان كى مساجد، مدارس اور حمام ڈها دينا ہوں گے۔“
علامہ اقبال نے كہا تها ع عقل عيار ہے، سو بهيں بدل لیتى ہے!!…
1600 عیسوى سے سن 2004ء تك آتے آتے ترقى يافتہ اور ’تہذيب يافتہ‘ يورپى ممالك نے عقل كى عيارى كوكام ميں لاتے ہوئے اسلامى تہذيب وتمدن كے خلاف اپنے قديم تعصب كو ’بے تعصبى‘، ’انسانى آزادى‘ اور ’سب كے لئے قابل قبول معاشرے‘ كے قيام جيسے دل كش مقاصد كا لباس پہنا ديا۔ اس طرح مسلم دنيا كے خلاف غير مسلم طاقتوں كى تہذيبى جنگ دو صورتوں ميں اُبهر كر سامنے آئى۔ امريكہ اور برطانيہ جيسے كچھ ممالك نے تو طاقت كے بل بوتے پر منتخب اسلامى ممالك كا كلچر تبديل كرنے كا عمل شروع كيا۔ جبكہ فرانس اور جرمنى جيسے ممالك نے اپنى جغرافيائى حدود كے اندر بسنے والے مسلمانوں كى تہذيبى شناخت كو ختم كرنے كى مہم آغاز كى۔ يورپ ميں تقريباً دو كروڑ مسلمان آباد ہيں ۔ ان ميں سے 20 لاكھ سے زائد