کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 72
مغر ب اور اسلامى ثقافت ڈاكٹر ظفر على راجا اسكارف ؍ حجاب كامسئلہ اسلام اور يورپى نفسيات نائن اليون (9؍11) كے بہانے امريكہ كو مسلمان ملكوں پر چڑھ دوڑنے كا جو موقع ملا، اس سے مسلم حكمران تو سپرانداز ہوہى رہے ہيں ليكن مسلمان ملكوں كے عوام ميں مغرب (نام نہاد عالمى اتحاد) كے خلاف ردِ عمل روز بروز بڑهتا جا رہا ہے۔ سيكولر قوتوں نے اس كا توڑ يہ سوچاہے كہ ثقافتى اثرونفوذ كے لئے مسلم معاشروں ميں كچھ بزعم خويش ترقى پسندوں كى خدمات حاصل كرلى جائيں ، دوسرى طرف مغرب ميں آباد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر سركارى دباوٴ بڑها ديا جائے۔ اسكارف و حجاب كى ممانعت، تصوير و موسيقى كى اباحت كے علاوہ لفنگوں اور اوباشوں كے ذريعہ بسنت اور ويلنٹائن ڈے كا شورو غوغا اسى سلسلہ كى كڑياں ہيں ۔ ان دنوں يورپى مغرب كے ملك فرانس نے اسكارف كى قانونى ممانعت كركے جو بے چينى پيدا كى ہے ، وہ دراصل اسلام كے تہذيبى شعائركے خلاف ہے جس ميں سردست خواتين كے سرڈهانپنے كو سامنے ركها گيا ہے۔ اگرچہ يہ تحريك اسكارف كے اسلامى شعار كے حوالہ سے چل رہى ہے ليكن بہت جلد اس كا دائرہ پورى اسلامى ثقافت كى پامالى كى طرف وسيع ہوتا نظر آرہا ہے جس كا بڑا ذريعہ ’يہود‘ كے زير تسلط اليكٹرانك اور پرنٹ ميڈيا ہے۔ يہاں يہ نكتہ قابل غور ہے كہ جو آزاد خيال لوگ سترو حجاب اور اختلاطِ مرد وزن يا بسنت اور ويلنٹائن ڈے كو اسلامى بنياد پرستى اور تشدد سے تعبير كرتے ہيں يابالفاظِ ديگر ايسى چيزوں كو دين و مذہب سے لاتعلق بتاتے ہيں خود ان كا آقا مغرب بهى اس كو تسليم كرنے كے لئے تيار نہيں ، وہ نہ صرف اسكارف كومذہبى شعار سمجھتا ہے بلكہ سيكولر ثقافت ميں دخل اندازى كا فساد بهى قرار ديتا ہے جس سے كم از كم يہ ثابت ہوتا ہے كہ دين و ثقافت كو الگ نہيں كيا جاسكتا خواہ سيكولرازم اس كيلئے كتنے ہى بلندبانگ دعوے كرلے۔ اسى پہلو سے مسلم دنيا كے تركى وتيونس اور مغرب كے فرانس وجرمنى وغيرہ ميں تہذيبوں كے تصادم (clash of Civilization) كے تازہ اُبهرتے ہوئے مسئلہ ’اسكارف وحجاب‘ كا مطالعہ فرمائيے۔ (محدث) 11؍ستمبر 2001ء كو تاريخ عالم ميں ايك يادگار دن كے طور پر ہميشہ ياد ركها جائے گا۔ يہى وہ دن ہے كہ جس دن مسلم اور غير مسلم دنيا كے درميان ايك طويل اور خون آشام تہذيبى ٹكراوٴ كا آغاز ہوا۔ اس دن كو كرہٴ ارض پر ’نائن اليون‘ كے مخفف نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اس