کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 71
بنيادى نظريہ سے دستبردارى اور اپنے استحكام كو خطرات سے دوچار كركے ہى نكل سكتا ہے۔ پاكستان كى غير معمولى جغرافيائى حيثيت اور عالمى سياست ميں اہم كردار كا پہلے بهى ہم نے خراج ادا كيا تها، آج بهى ہمارا يہ امتياز ہمارے فائدے كا نہيں ليكن دوسروں كا ہميں آلہ كار بننے پر مجبور كررہا ہے۔
اگر ہم اپنى جغرافيائى او رنظرياتى حيثيت سے فائدہ نہيں اٹها سكے تو اس كى وجہ ہمارى داخلى كمزورى اور قومى وحدت كا نہ ہونا ہے۔ سياسى طور پر ہمارے حكمران وطن ميں اپنى بنياديں مضبوط كرنے اور ملك و ملت كا بهلا كرنے كى بجائے غيروں كے سہارے پر اہل وطن پر حكومت كرتے ہيں ۔ ايسے عالم ميں دوسرے ہميں استعمال ہى كرسكتے ہيں اور ہمارى كمزورى كى ہم سے قيمت ہى وصول كرسكتے ہيں ۔ يہ توقع ركهنا كہ اس خود سپردگى اور اطاعت وفادارى كے بعد امريكہ جيسى سپرپاور ہمارى شكرگزار ہوگى، ايك كار عبث ہے۔
كل كے اخبار ميں امريكى خارجہ پاليسى كا يہ وصف نماياں سرخيوں كے ساتھ چهپا ہے:
”امريكہ كا دہشت گردى سميت كسى بهى ايشو پر كوئى اصولى موقف نہيں ، امريكہ كى حمايت اور مخالفت ہميشہ اس كے قومى مفاد كے تابع رہى ہے۔ جمہوريت انسانى حقوق، آزادئ اظہار، عدليہ اور انصاف كے سب نعرے فقط نعرے ہيں ۔ صدر مشرف نے منتخب حكومت كا تختہ الٹنے كے باوجود امريكہ كى اس قدر قربت اس لئے حاصل كرلى ہے كہ انہوں نے امريكى پاليسيوں كى غير مشروط حمايت كى ہے۔“ روزنامہ نوائے وقت (30 مارچ صفحہ آخر)
ان سرخيوں كے بين السطور اس امر كا اعلان موجود ہے كہ دراصل امريكہ كسى بهى ملك يا شخصيت كا دوست نہيں ہے بلكہ وقتى مفادات كے تحت امريكہ كى ترجيحات بدل جاتى ہيں ۔ آج اگر كوئى امريكى حكومت كى آنكھ كا تارا ہے تو مفادات پورے ہوجانے پر اس كو سربازار تختہ دار پر بهى چڑهايا جاسكتا ہے۔ ہمارے حكمرانوں كو امريكہ كى اس صاف گوئى سے عبرت پكڑنا چاہئے اور اللہ كے ديئے اس منصب اور اس مملكت ِخداداد كى حرمت كو پامال كرنے پر اپنا محاسبہ كرنا چاہئے۔ ( حافظ حسن مدنی )