کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 66
سے پاكستان كى طرف ہجرت كرنے والے قافلوں سے ان كى جوان بيٹياں چھین ليں ۔ مزاحمت كرنے والے باپوں اور بهائيوں كو قتل كرديا۔ ان ميں سے بچى كچھى عورتيں آج بهى بهارتى پنجاب ميں موجود ہيں ۔ كيا رپورٹ كے مصنّفين يہ بتاسكتے ہيں كہ پاكستانى پنجاب ميں بهى اس حد تك مكروہ غير انسانى اور ظالمانہ افعال كئے گئے۔ اگر تو سكهوں كى صفائى پيش كرنا ہے اور مسلمانوں كو برابر كا مجرم ٹهہرانا ہے تو يہ ’مقدس‘ كام آپ كو ہى مبارك ہو۔ نہ جانے بيرونى امداد پر چلنے والى اين جى اوز كے لوگ اس معروضيت سے ہاتھ كيوں دهوليتے ہيں جس كا يہ لوگ بہت دعوىٰ كرتے ہيں ۔ اس رپورٹ ميں تيسرا اہم اعتراض نظر يہٴ پاكستان پر كيا گيا ہے كہ اسے 25سال بعد وضع كيا گيا اور بلا تخصیص سب بچوں پر اسے ٹهونسا جارہا ہے۔ رپورٹ كے مصنّفين كى يہ رائے بهى قطعى طور پر مغالطہ آميز ہے۔ دو قومى نظريے كو آزادى كے واحد محرك كى بجائے قيام پاكستان كى اُصولى اور نظرياتى اساس كے طور پر پيش كيا جاتا ہے۔ اگر ديگر مذاہب كے بچے اس سے واقفیت حاصل كرتے ہيں تو پاكستان كے شہريوں كى حيثيت سے انہيں اس كا شعور ہونا چاہئے، دو قومى نظريہ كى بنياد پر آج تك پاكستان ميں فرقہ وارانہ كشيدگى نہيں پھیلى، قائداعظم اس نظريے كے سب سے بڑے علمبردار تهے، آپ نے اپنى تقريروں ميں بارہا اس كى وضاحت كى۔ بهارت ميں پڑهائے جانے والى نصابى كتب ميں جس طرح دو قومى نظريے كى تكذيب كى جاتى ہے اور اكثر و بيشتر غير حقيقى دلائل كا سہارا لے كر مسلمان بچوں كے ذہنوں كو مسموم كيا جاتا ہے اس كا تو عشر عشير بهى پاكستان ميں نہيں ہوتا۔ رپورٹ ميں تاريخ پر بهى اعتراض كيا گيا ہے۔ يہ اعتراض بهى بچگانہ ہے كيونكہ پاكستان كى تاريخ تو محمد بن قاسم ياقائداعظم سے ہى شروع كى جاسكتى ہے، ہاں ہندوستان كى تاريخ پڑهنا ہو تو آرياوٴں سے اس كو شروع كرنا ہوگا۔ جن اعتراضات كو اس مذہب بيزار طبقہ نے اس رپورٹ ميں دهرايا ہے، اس سے قبل بهى وه ايسے ہى خيالات كا اظہار كرتے آئے ہيں ۔ محدث كے صفحات ميں پہلے بهى ان باتوں كا