کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 65
باب پنجم : مفید حقائق جو نظر انداز کر دیے گئے ، از خورشید حسین باب ششم: پرائمری تعلیم میں درپیش تدریسی مسائل : ایک نصابی تجزیہ ، از احمد پرویز باب ہفتم : سکولوں کی نصابی کتب میں صنفی امتیاز کی تعلیم ، از آمنہ منٹو ، نیلم حسین باب ہشتم : انسانی حقوق ، از سید جعفر احمد باب نہم : چھٹی سے دسویں کلاس تک اردو کی تعلیم ، از طارق رحمن باب دہم : چھٹی سے دسویں کلاس تک معاشرتی علوم کی تعلیم ، از ہاجرہ احمد باب گیارہ : سکولوں میں ’ تعلیمات امن ‘ سکھانے کا مجوزہ منصوبہ ‘ از زرینہ سلامت اخبارات میں رپورٹ كے اشاعت كے ساتھ ہى دانشور صحافى جناب عطاء الرحمن نے اپنے كالم ’تجزيہ‘ ميں اس رپورٹ ميں پيش كردہ اعتراضات كى دو اقساط (30 اور 31 مارچ 2004ء) ميں وضاحت كى۔رپورٹ كا خلاصہ پيش كرنے كے بعد آپ نے ان اعتراضات كو 8 مختلف حصوں ميں تقسيم كركے ان كا جواب ديا ہے، قارئين كى دلچسپى كيلئے اس كے بعض حصے پيش خدمت ہيں : رپورٹ ميں كہا گيا ہے كہ نہرواور گاندهى كے كردار كو نظر اندا زكيا گيا اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ كے كردار كو حقيقت سے زيادہ اُجاگر كيا گيا ہے۔ يہ اعتراض تاريخ كى ميزان ميں كوئى حيثيت نہيں ركهتا۔ پاكستان نہرو اور گاندهى نے نہيں بنايا تها بلكہ انہوں نے ڈٹ كر مخالفت كى تهى، قائداعظم اس ملك كے غير متنازعہ بانى ہيں ، ان كى اس حيثيت كو ہندو موٴرخين بهى تسليم كرتے ہيں ۔ 1942ء ميں نہرو اور گاندهى كى كانگريس نے انگريز حكومت سے ہندوستان چهوڑ دو كا مطالبہ كيا اور تحريك چلائى تو قائداعظم نے كہا كہ صرف ہندوستان چهوڑنا كافى نہيں بلكہ اسے تقسيم بهى كرو۔ ايك اعتراض يہ بهى كيا گيا كہ تقسيم ہند كے وقت ہندووٴں كے مظالم كو بڑھ چڑھ كر بيان كيا گيا ہے جبكہ مسلمانوں كے مظالم كا كوئى تذكرہ نہيں ۔يہ اعتراض بهى بے وزن ہے۔ كيا كوئى ہندو، انگريز، سكہ موٴرخ اس بات سے انكار كرسكتا ہے كہ سكهوں نے ہندووٴں كى كھلى آشيرباد