کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 63
ہوئى بيرونى مداخلت اور غير ملكى امداد ى اداروں كے ذريعے اين جى اوز كا عمل دخل ختم كيا جائے۔ اسماعيليوں كو آغا خان فاوٴنڈيشن كے ذريعے جس طرح شمالى علاقوں ميں پورا نظامِ تعليم دے ديا گيا ہے اور آغا خان ايجوكيشن بورڈ كے ذريعے جس طرح سركارى اور غير سركارى اداروں كوبورڈ كے ساتھ الحاق كى اجازت دے دى گئى ہے، يہ قومى نظام تعليم كے لئے زہر قاتل ہے، اسے فورى طور پر واپس ليا جائے۔ علما اور اہل دانش نے مطالبہ كيا ہے كہ آغا خان ايجوكيشن بورڈ كو پارليمنٹ كے ايكٹ كے طور پر منظور نہ كياجائے۔ تربيت ِاساتذہ كا سلسلہ جس طرح يو ايس ايڈ، يورپى كميشن اور سيڈا كى مالى پشت پناہى سے آغاخان فاوٴنڈيشن كے حوالے كيا گيا ہے، اسے واپس ليا جائے اور تربيت يافتہ اساتذہ كے قومى اداروں كے ذريعے ہى حسب ِسابق كام ليا جائے۔ نصابِ تعليم پر جس طرح متعصبانہ اور غيرعلمى انداز سے بعض اين جى اوز محاذ بنائے ہوئے ہيں ان كى حوصلہ شكنى كرتے ہوئے نصابِ تعليم ميں اسلامى نظريہٴ حيات اور قرآن وحديث نيز نظريہ پاكستان كے اساس كو ختم كرنے كى بجائے اس ميں آئين كے آرٹيكل 31كى روشنى ميں اضافہ كيا جائے۔ گذشتہ دنوں قاضى حسين احمد نے بهى اس حوالے سے بهرپور تحريك چلانے كا اعلان كيا ہے۔ يہى رپورٹ ان دنوں اخبارات كا موضوع ہے، چنانچہ نوائے وقت نے دوبارہ 30 مارچ كو صفحہ آخرپر اس كے مطالبات قدرے طنزيہ انداز ميں پيش كئے ہيں : ”نصابى كتب سے تاثر ملتا ہے كہ پاكستان صرف مسلمانوں كے لئے ہے، SDPI كى انوكهى منطق… سكول كى كتب ميں مذہب او رتاريخ سے متعلق غلطياں درست كى جائيں ، تنظيم كى مرتب كردہ رپورٹ ميں تاريخى سفارشات… “ رپورٹ کا نام بڑا معنی خیز تجویز کیا گیا ہے ، The subtle subversion لطیف تخریب ‘ ...... یعنی نظریہ پاکستان اور اسلامی معلومات کو پاکستانی بچوں کو سکھانے کے لیے ایسے نام کے انتخاب سے ہی مرتبین کے عزائم کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اس رپورٹ ميں تين مضامين سوشل سٹڈيز يا پاكستان سٹڈيز، اُردو اور انگلش كا خصوصى طور پر احاطہ كيا گيا ہے۔ اس كے مطابق