کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 61
كچھ لوگوں نے اپنے سياسى نظريات كو باوزن بنانے كے لئے تاريخ كو مسخ كركے پيش كيا ہے۔تحريك ِپاكستان كے نام سے شامل تاريخ دوسرى قوموں كے خلاف نفرت آميز جذبات ابهارنے كے مترادف ہے۔پہلى كلاس تا دہم ميں محمد بن قاسم كو فاتح كے طورپر ذكر كرنا درست نہيں ۔ رپورٹ كے مصنّفين نے نصابِ تعليم ميں بهارتى ليڈروں كو سراہے نہ جانے پر بهى اعتراض كيا ہے۔نصاب كے حوالے سے انہوں نے كہا كہ ہرسطح پر يہ نصاب مذہبى تعليمات كے بوجہ تلے دبا ہوا ہے۔نئے نصاب ميں معاشرتى ، معاشى اور سياسى پہلووں كو اہميت دى جانا چاہئے۔رپورٹ كے مطابق نصابى كتب ميں استعمال كئے جانے والے مسلم دنياكے الفاظ بالكل درست نہيں ۔اسلامى معاشرہ كے الفاظ بهى قابل گرفت ہيں ۔ ايسا نصاب ہونا چاہئے جو گلوبلائزيشن كے عالمى تقاضوں كى تكميل كرتا ہو۔مجموعى اعتبار سے پاكستان كو ايك سيكولر رياست بنانے كے لئے نصاب پر نظر ثانى كى ضرورت ہے۔“ (نوائے وقت:23؍مارچ 2004ء )
اس رپورٹ پر تبصرہ كرتے ہوئے پنجاب يونيورسٹى كے سابق وائس چانسلر منير الدين چغتائى نے كہا كہ ”يہ رپورٹ پاكستانيوں كو ہندو ذہنيت كے زير اثر لانے كا حربہ ہے۔يہ نظريہ پاكستان او رپاكستانى وجود كے خلاف كھلى جنگ ہے۔ہمارى بدقسمتى ہے كہ ہمارے ہاں ايسے نام نہاد مفكر موجود ہيں جو يہ كوشش كررہے ہيں كہ پاكستانى نصاب تعليم سے ايسى تمام چيزيں نكال دى جائيں جو ہمارے نظريہٴ حيات كى بنياد ہيں اور جن كى بنياديں قرآن وسنت ميں ہيں ۔ يہ ان لوگوں كے خيالات ہيں جو اكھنڈ بهارت كا خواب ديكهتے ہيں ۔ 1905ء ميں صوبہ بنگال و آسام كے نام سے جب ايك حكومت قائم كى گئى تو ہندؤں نے احتجاج وہنگامہ كركے انگريزوں سے 1911ء ميں اس صوبے كو ختم كرا ديا۔اس تحريك ميں ہندو كہاكرتے تهے كہ صوبہ عليحدہ بنا كر ہمارے مذہب كونقصان پہنچايا گيا ہے، ہمارى كالى ديوى كے ٹكڑے كئے گئے ہيں ، جس كو ہم كبهى برداشت نہيں كريں گے۔ “(ايضاً)
الفلاح اكيڈيمى كى سالانہ تقريب سے خطاب كرتے ہوئے پنجاب يونيورسٹى كے ہى سابق وائس چانسلر ڈاكٹر رفيق احمد نے قرار ديا كہ
”نصاب سے نظريہ پاكستان اور اسلامى عقائد كا اخراج خطرناك ہوگا، اگر ايسا ہوا تو پاكستان كا وجود خطرے ميں پڑجائے گا۔“
(روزنامہ ’نوائے وقت‘: 31 مارچ ، ص 2)