کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 60
کے بعد پیدا شدہ حالات کے تناظر میں شروع ہوئی ، جس پر اسلام آباد كى ايك الحاد پسند تنظيم SDPI نے ريسرچ پيپر تيار كيا، اس رپورٹ كى بنياد پر وزارتِ تعليم نے نصاب كى اصلاح كا ايك كميشن قائم كيا ہے، جو سفارشات كى روشنى ميں نصاب ميں اصلاحات كے اقدامات كرے گا۔ رپورٹ تیار کرنے والوں میں ایسے نام نہاد دانشور بھی شامل ہیں جنہوں نے آج سے 8،10 سال پہلے وطن كے مايہ ناز ايٹمى سائنسدانوں کی اسلام آباد میں قبر بنا کر ان کی توہین کی تھی جبکہ نظریہ پاکستان کے خلاف تواتر سے لکھنے والوں کی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ بعض لادین کلچر اور ملک میں افراتفری پھیلانے والی این جی اوز کے تنخواہ دار لکھاری ہیں ۔ غرض یہ رپورٹ اسلام آباد اور پاکستان کے خلاف لکھنے والے لادین دانشوروں کے منحرف خیالات کا مرقع ہے ، جس کو 11 ستمبر کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ریسرچ کے نام پر پیش کیا گیا ہے ۔ 140 صفحات پر مشتمل ريسرچ پيپر The subtle subversion كے چيدہ چيدہ نكات كو روزنامہ ’نوائے وقت‘ ميں يوں شائع كيا گيا ہے: ”نصاب ميں اسلامى تعليمات اور دو قومى نظريہ نہيں ہونا چاہئے۔رپورٹ ميں تمام عوامل مثلاً اسلامى شعائر كى تعليمات، فلسفہ جہاد وتصورِ شہادت، دو قومى نظريہ جس كا نصاب اس وقت آئينہ دار ہے ، كو غير ضرورى قرار ديا گيا۔نام نہاد محققين نے موجودہ نصاب كى روح كو شديد تنقيد كا نشانہ بناتے ہوئے كہا كہ موجودہ تعليمى نصاب كو محض اسلامى قواعد وضوابط كا ملغوبہ بنا ديا گيا ہے۔ ناظرہ قرآن كى تعليم غير ضرورى ہے۔اكثريتى قوت كو فوقيت دے كر مذہبى متعصبانہ رويے كا مظاہر ہ كيا گيا ہے۔قائد اعظم نے كبهى نظريہٴ پاكستان كا لفظ استعمال نہيں كيا، نظريہ پاكستان كى كوئى حقيقت نہيں ، اسے 1969ء ميں ہوا دى گئى ہے۔يہ بهى اعتراض كيا گيا ہے كہ