کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 59
خان يونيورسٹى كے حوالے كرنے كى تائيد كردى۔(روزنامہ جنگ: 29؍مارچ2004ء) جبكہ انہوں نے فرقہ واريت پر مبنى قابل اعتراض مواد كو درسى كتب سے نكالنے كى ضرورت پر بهى زور ديا۔( روزنامہ نوائے وقت: 31؍مارچ 2004ء)
اس سے قبل 29؍ جنورى2004ء كے اخبارات ميں يہ خبر شائع ہوئى كہ
”امريكى حكومت نے پاكستانى معيشت پرآئى ايم ايف اورورلڈبنك كے ذريعے قبضہ جمانے كے بعد پاكستانى تعليمى نظام كو بهى اپنے كنٹرول ميں لينے كے لئے اقدام شروع كرديے ہيں ۔ اس سلسلہ ميں امريكى حكومت اور آغاخاں يونيورسٹى كے درميان ايك معاہدہ 3 ؍اگست 2003ء كو طے پايا تها۔ پاكستان ميں تعينات امريكى سفير نينسى پاول اور آغا خاں يونيورسٹى كے نمائندے شمس قاسم لاكہانى نے اس معاہدے پر دستخط كئے تهے۔ جس كى رو سے آغا خاں يونيورسٹى ملك بهر كے 23 تعليمى بورڈز كا نظام اپنے ماتحت چلائے گى۔ ذرائع نے انكشاف كيا كہ معاہدے كے مطابق تعليمى بورڈز كا نظام سنبهالنے كے لئے امريكى حكومت آغا خاں يونيورسٹى كو 450 لاكھ ڈالر كى امداد بهى فراہم كرے گى۔ جس كے ذريعے آغا خاں يونيورسٹى ايك پرائيويٹ تعلیمى بورڈ بهى تشكيل دے گى جو ميٹرك اور انٹر ميڈيٹ كے 23 بورڈز كے انتظامات سنبهالے گى۔“ (روزنامہ ’نيا اخبار‘: صفحہ اوّل بحوالہ قومى اخبارات)
اس معاہدہ ميں وفاقى وزير تعليم زبيدہ جلال اور سندہ كے صوبائى وزير تعليم عرفان اللہ مروت نے بهى دستخط كئے۔قومى اسمبلى كے ايوان ميں جب اس پر توجہ دلائى گئى تو وزير اعظم اور چودہرى شجاعت حسين نے اس بارے ميں اپنى لاعلمى كا اظہار كيا جبكہ وزارتِ تعليم نے يہ موقف اختيار كياكہ موجودہ حكومت سے قبل نومبر 2002ء ميں يہ معاہدہ جات ہوچكے ہيں ۔اور صدارتى آرڈيننس ميں انہيں طے كيا جا چكا ہے۔ان دنوں قانونى حلقوں ميں يہ بحث چل رہى ہے كہ آيا اس آرڈيننس پر اسمبلى كے ايوان ميں بحث ہوسكتى ہے يا اس كا تعلق ان آرڈيننسوں سے ہے ، جن كو ايل ايف او كے ذريعے منظور كيا جاچكا ہے۔اخبارات میں تازہ خبر یہ چھپی ہے کہ 3 اپریل کو وزیر اعظم نے نصاب تعلیم میں تبدیلی اور قرآنی آیات کے اخراج کے مسئلے پر وزارت تعلیم کا ایک اجلاس طلب کر لیا ہے ( روزنامہ جنگ : 2 اپریل 2003ء)
پاكستانى تعليم سے نظريہٴ پاكستان اور اسلامى تعليمات نكالنے كى يہ مذموم سازش نائن الیون