کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 55
”پرنس كريم آغا خان اوران كے خاندان كے بين الاقوامى سطح پر رابطوں ، اثر ورسوخ ميں كوئى ثانى نہيں ۔ اس گروپ كے اسرائيل، امريكہ، برطانيہ، جرمنى اور يورپى يونين سميت درجنوں اسلامى ممالك، آسيان ممالك، افريقى ممالك سے براہ راست اقتصادى تعلقات ہيں ۔ دنيا كے بيشتر ملكوں ميں پرنس كو VVIP پروٹوكول حاصل ہے۔ “ ( 14 مئى 2003ء، ص 12) انہى اعلىٰ غيرملكى تعلقات كا نتيجہ ہے كہ پاكستان ميں آغا خان كے ديہى ترقياتى پروگرام كو روز بروز ترقى دى جارہى ہے، جس ميں برطانيہ ، امريكہ، كينيڈا اور ہالينڈ بڑھ چڑھ كرمدد دے رہے ہيں ۔آغا خانيوں نے عرصہ دراز سے پاكستان كے سرحدى علاقوں گلگت، چترال اور وادى ہنزہ ميں امدادى سرگرميوں كا جال بچھا ركها ہے۔ زرِ كثير خرچ كركے ان علاقوں ميں انہوں نے اپنى اہميت تسليم كرا لى ہے۔ مولانا عبيد اللہ چترالى نے 1987ء ميں ان شمالى علاقہ جات كا دورہ كيا اور اپنے تاثرات ميں لكها كہ ”ان علاقوں ميں آغا خانى رياست عملاًقائم ہوچكى ہے، ہر چهوٹے بڑے گاؤں ميں آغاخانى سكول قائم ہيں ۔ اور علاج معالجہ كے لئے متعدد ہسپتال، جماعت خانوں كو آغاخانى دفاتر كے طورپر استعمال كيا جاتا ہے جن ميں يوميہ 8 بجے صبح سے 4 بجے شام تك آغاخانى پرچم لہرايا جاتا ہے۔تقريباً تمام ديوانى وفوجى مقدمات كا فيصلہ اسماعيلى تنظيموں كے سركردہ افراد كرتے ہيں ، حكومتى عہديدار آغا خانى تنظيموں كے سامنے بے بس اور مجبور ہيں ۔سڑكوں ، نہروں اور ريلوں كا جال بچھايا گيا ہے جن پر آغا خان فاؤنڈيشن كے بورڈ نصب ہيں ۔ سركارى سڑكوں پر فرلانگ ، دو فرلانگ كے فاصلے پر آغا خانى شعار (5 انگليوں والا نشان ) دكهائى ديتا ہے۔ ان تمام كاموں كى سرپرستى ’اسماعيليہ ايسوسى ايشن‘ كے نام سے ايك تنظيم كرتى ہے۔ ان كاموں كى رپورٹيں كراچى كے صدر دفتر كے ذريعے فرانس ميں باقاعدگى سے ارسال كى جاتى ہيں جہاں سے كام كرنے كى پاليسى جارى ہوتى ہے۔“ (ماہنامہ ’الحق‘بابت دسمبر 1989ء ، ص 31 ’شمالى علاقہ جات ، آغا خانى عزائم اور ہمارى غفلت‘ از مولانا عبيد اللہ چترالى ) آغاخانى رياست آغا خانى اپنے نئے جنم سے ايك سٹيٹ بنانے كے لئے سرگرم ہيں جس كے لئے نہ صرف انگريز سركار كى حاشيہ نشينى كرچكے ہيں ، بلكہ روس كى افغانستان پر جارحيت كے دنوں ميں آغا