کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 54
نہيں ۔ پاكستان كے نئے سياسى منظر نامے ميں آغا خاں اور ان كے پيروكاروں كو غيرمعمولى اہميت دى جارہى ہے۔ آغاخانى فرقے كے عقائداس باطنى گروہ سے ملتے ہيں جو تاريخ ميں حسن بن صباح كے جانثاروں كے نام سے معروف ہے۔ ان كا تعلق اس اسماعيلى فرقے سے ہے جو مصر ميں كئى سوسال حكومت كرچكا ہے اور مسلمانوں كى وحدت كو توڑنے ميں اس كا كردار نماياں رہا ہے۔اس فرقے كو نئى زندگى اُنيسويں صدى ميں اس وقت ملى جب انگريزوں نے ان كى سرپرستى كى اور دنيا بهر سے آغا خانيوں كو جمع كيا گيا۔ آغا خاں اوّل ايران ميں نمودار ہوئے، 1858ء ميں مسقط كى اسماعيلى جماعت نے آغاخاں كى مذہبى حيثيت كے بارے بمبئى ہائيكورٹ ميں مقدمہ دائر كيا ، انگريزى عدالت كے فيصلہ كى رو سے آغا خاں كو اس فرقے كا روحانى پيشوا قرار ديا گيا۔اسى وجہ سے آغا خاں كو ’پرنس ‘كا لقب ديا جاتا ہے۔ آغا خاں كى شخصيت سے سرچارلس اس قدر متاثر تهے كہ انہوں نے ان كى بيش بہا خدمات او رقربانيوں كا ذكر گورنر جنرل ہند سے كيا اور لندن رپورٹ روانہ كى جس كے نتيجے ميں آغا خاں كو ’ہز ہائى نس‘ كا تاريخى خطاب عطا كياگيا۔ (تاريخ اسماعيليہ: ص 49،50) ايك اور روايت كے مطابق سندھ پر انگريزوں كے حملے ميں آغا خانيوں نے انگريزوں كا ساتھ ديا۔ يہ آغا خان سوئم كا زمانہ تها، ان كى خدمات كے صلے ميں انہيں حكومت ِبرطانيہ كى طرف سے ’سر‘ اور ’ہزہائى نس‘ كے خطابات سے نوازا گيا۔ آغا خانيوں كے مذہبى عقائد كى ايك جهلك ملاحظہ فرمائيے: ”اس فرقے نے اسلامى عقائد كوپامال كرنے ميں كوئى دقيقہ فروگذاشت نہيں جانے ديا۔ قرآن كو محرف بتايا، اللہ رب العزت كے وجود كا يہ كہہ كر انكار كيا كہ غائب خدا كو ماننا نامعقول ہے۔ اپنے امام كو خدا مانا، جنت ودوزخ اور آخرت كا انكار كيا۔ نماز روزہ او رحج كا تصورہى ختم كرنے كى كوشش كى۔ خانہ كعبہ كو سامراجيوں كا اجتماع گاہ قرار ديا اور اسلامى شريعت كو سرے سے منسوخ وباطل قرار ديا۔“(ماہنامہ الحق: اگست 1985ء، ص 37) ان دنوں آغا خانى پرنس فرانس ميں رہائش پذير ہيں جہاں ان كے متعدد دفاتر كام كررہے ہيں جبكہ تنظيم كا صدر دفتر جنيوا ميں ہے جس ميں يہوديوں كى بكثرت آمد ورفت رہتى ہے، غير مسلم دنيا ميں ان كا غيرمعمولى احترام كيا جاتا ہے، پاكستان ميں بهى انہيں سربراہ مملكت كا پروٹوكول ديا جاتا ہے۔معروف جريدے ’تكبیر‘ كے مطابق