کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 53
درميان طے پاگيا ہے۔ امريكہ نے پاكستان كے لئے ايك نيا كردار تجويز كيا ہے، ايسى حكومت جوسرچشمہ اقتدار پر امريكى طاقت كے سہارے قابض ہے، اس كى كمزورى كى كچھ ايسى قيمت لگى ہے كہ سب كے تيور بدلے بدلے نظر آتے ہيں ۔ گويا ايك دہن ہے يا ايك فرض جس كى تعميل كے لئے سرير اقتدار پر براجمان طبقہ سرگرم ہے۔حكومت كى يہ فدويانہ روش كسى كى سمجھ ميں نہيں آرہى جناب عرفان صديقى كے بقول :
”شايد ہى كوئى پاكستانى بهارت سے مستقل تصادم ، محاذ آرائى او رجنگ وجدل كے حق ميں ہو … ليكن شايد ہى كوئى پاكستانى سپراندازى اور خود سپردگى كى اس فدويانہ روش كے حق ميں ہوجسے ہم نے عہد نو كى حكمت ِعملى كے طور پر اپنايا ہے۔“(30؍ مارچ 2003ء)
اِسى روز يہى بات ايك اوررنگ ميں مسرت لغارى صا حبہ نے اپنے كالم ميں لكهى ہے:
”پاكستان كے پرچم كو بهارت كے ترنگے كے ساتھ سينے كا كام كس كے حكم پر ہوا۔ پاكستانيوں كى خود سپردگى كا يہ عالم ہے كہ كركٹ كے ميدان ميں ہارنے كے بعد جشن فتح منايا گيا، پاكستانى كپتان كے چہرے پر بلا كا سكون او رسكون كى گهرى نيند سے بيدار ہونے كا چين لگتا تها۔ گويا ان كے ذمے جو مشن سونپا گيا تها، بخوبى انہوں نے پورا كرديا۔ ہارنے كے بعد پس منظر ميں اتنے پاكستانى پرچم لہرائے گئے كہ لگتا تها جيت پاكستان كى ہوئى ہے۔پاكستانى تماشائيوں كے گالوں پر ترنگے كے نشان اور دلوں ميں مچلتى ترنگيں تهيں ۔“ (كالم ’فكر جہاں ‘)
حكومت نے جس انداز ميں كهيل ڈپلوميسى شروع كى، اس ميں وارفتگى كا يہ عالم ہے كہ23 مارچ كو ہميشہ سے منعقد ہونے والا يومِ قرارداد پاكستان منسوخ كرديا گيا، اس روز قرار دادِ پاكستان پر ملك بهر ميں تقريبات كا سرے سے اہتمام نہ كيا گيا، كسى سركارى عمارت پر چراغاں نہ كيا گياجبكہ تعليمى اداروں ميں سوئى گرنے كى سى خاموشى طارى رہى ۔
بهارتيوں پر اس فريفتگى كا نتيجہ مثبت نكلنے كے بجائے وہى نكلا جيسا كہ ہميشہ سے ہوتا آيا ہے۔ 29 مارچ كے اخبارات ميں يہ خبر چھپى كہ بهارتى رياست گجرات كے 3 بڑے شہروں ميں متشددانہ كاروائياں شروع ہوگئى ہيں اور مسلم كش فسادات كا خطرہ محسوس كيا جانے لگا ہے۔
آغا خانيوں كا ملك ميں بڑھتا ہوا كردار
ملك كى خارجہ صورتحال تو پريشان كن ہے ہى، ليكن داخلى صورتحال بهى كچھ كم تشويشناك