کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 52
وطن عزيز ميں جديد تعليم كو پهيلانے والے كاروبارى تعليمى اداروں ميں جس طرح يونيورسٹى چارٹرز كى بندربانٹ جارى ہے، مدارس كے كرتا دہرتاؤں نے تمام دينى امتحان بورڈز پر مشتمل ايك چارٹر كى درخواست سركار كى خدمت ميں پيش كى تهى، ليكن اس كى طرف آنكھ اٹها كر بهى نہ ديكها گيا۔ جديد تعليم كا كوئى بهى ادارہ ہو، جب اس ميں مغربى كلچر كى معمولى سى چكاچوند پيدا ہوجائے اور وہ نماياں ہونے لگے تو اس كو ابتدائى طور پر يونيورسٹى كے لئے منظور كرليا جاتا ہے ليكن بيسيوں سا ل سے قائم عظيم دينى مدارس جن كى خدمات، طلبہ اورعلمى وسائل ايسے اداروں سے كئى گنا زيادہ ہيں ، اور ان كا نيٹ ورك بہت وسيع ہے ، ان كا داخلہ اس ميدان ميں سرے سے ہى بند ہے۔ ايك طرف دينى مدارس كو حاصل آمدنى كے ذرائع پر پابندياں لگا دى گئى ہيں دوسرى طرف بيرونى فنڈ سے چلنے والى ملكى اور غيرملكى اين جى اوز كا ايك جنگل اُگ آيا ہے اور بے روك ٹوك كام كررہى ہيں ۔ان كى امداد كس مد ميں صرف ہورہى ہے، اس پر كوئى چيك نہيں ۔ مدارس كے لئے اوقاف توعرصہ ہوا انگريز سركار نے چھین لئے تهے، جس كے بالمقابل عيسائى اداروں كو عوام الناس ميں اسلام سے بيزارى پيدا كرنے كے لئے كھلى چهوٹ دى گئى تهى۔ اسلامى جمہوريہ پاكستان ميں آج بهى صورتحال چنداں مختلف نہيں ۔ چند ماہ قبل ہى ايف سى كالج جيسے بڑے سركاريتعليمى ادارے كو اربوں كى اراضى اور وسائل كے ساتھ دوبارہ عيسائيوں كے حوالے كيا جاچكا ہے۔ اب 31؍ مارچ كے اخبارات ميں يہ خبر شائع ہوئى ہے جس سے بہت سے انديشے سر اٹهانے لگے ہيں : ”ايف سى كالج كو يونيورسٹى كا چارٹر مل گيا… كالج كے پرنسپل ڈاكٹر پيٹر آرماكوسٹ نے كہا ہے كہ اس يونيورسٹى كا الحاق امريكہ كى يونيورسٹى سے كيا جائے گا۔ہم جديد طرز كا امتحانى سسٹم متعارف كرائيں گے۔“(روزنامہ جنگ: 31 مارچ 2004ء، ص 3) اس سے پہلے ملك ميں حدود آرڈيننس كے خلاف مہم جارى ہے، نام نہاد حقوقِ نسواں كى بحالى كے لئے حكومتى سطح پر كوششيں كى جارہى ہيں ، اور قومى اسمبلى ميں اس پر بحث شروع ہوچكى ہے جس كى حمايت اورمخالفت ميں گروپ بندى ہورہى ہے۔ يہ سب كچھ كسى نئى آزمائش كا پتہ دے رہا ہے، كچھ توايسا ہے جو اس ملك ميں مقتدر طبقہ كے