کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 128
اسلام كے تہذيبى اداروں كو مقامى ثقافت كے ساتھ جوڑنے جيسے اہم كام كو بالكل نظر انداز كئے ہوئے ہيں ۔ اس كوتاہى كے نتيجے ميں پاكستان كى قومى ثقافتى زندگى شديد پیچیدگيوں كا شكار ہے۔ ہمارے معاشرے كے اسلامى خدوخال نكھرنے كى بجائے دہندلاتے جارہے ہيں ، جبكہ ہندو اور مغربى تہذيب كے اثرات كا رنگ نماياں ہوتا جارہا ہے۔
اگر ہم اسلام كو انسانى زندگى كے لئے مكمل نظامِ حيات سمجهتے ہيں ، اگر ہم اسلام كو ثقافت كے باطنى و خارجى عناصر كا محورى نكتہ سمجھتے ہيں تو پهر اس كا منطقى نتيجہ اس كے علاوہ كوئى اور نہيں ہونا چاہئے كہ ہم اپنے كلچر كے مظاہر كو اسلام كى اقدار كے مطابق ڈهاليں ۔ ہمارے كهانے پينے، رہنے سہنے، اوڑهنے، سونے كے سب طريقے، ہمارے خيروشر كے معيارات، ہمارى تقريبات، ہمارى خوش وغمى كے مواقع، ہمارى معيشت، ہمارے فنون و ہنر، ہمارى سياست، ہمارا ادب اور ہمارے تہوار منانے كے طريقے غرض ہمارى زندگى كے سب دائرے اسلامى فكر كے نور سے روشنى پائيں ۔ ہمارے ايمان كا تقاضا يہ ہے كہ ہم اپنى قومى زندگى ميں مذہب اور كلچر كے درميان جہاں كہيں اختلاف يا تصادم دیكھیں ، وہاں مذہب كو محكم اور فيصلہ كن قوت تسليم كريں اگر ہمارا يہى رويہ بن جائے تو تب ہمارى قومى ثقافت صورت گر ہوگى!!