کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 127
رقص اور موسیقى كو ہندومت ميں آج بهى عبادت كا درجہ حاصل ہے۔ تھیٹر اور اداكارى كا فن يونانى تہذيب سے ماخوذ ہے۔ يونانيوں سے يہ فن روميوں نے سيكها۔ يونانى اور رومى تہذيبوں ميں تهيٹر كو عبادت گاہ كا درجہ حاصل تها۔ ان كے خيال ميں خدا كے اوتار نے زمين پر ظہور كيا تو گويا خدا اسٹيج پر آيا۔ يورپ ميں بهى سترہويں صدى تك تهيٹر ميں صرف مذہبى ڈرامے ہى پيش كئے جاتے تهے۔ اسلام چونكہ ابدى دين ہے جس ميں آنے والے انسانوں كے لئے بهى ضابطہ حيات موجود ہے۔ اسى لئے اسلام نے اپنا الگ ثقافتى نصب العین بهى پيش كيا۔ بت پرستى چونكہ اسلام كے تصورِ توحيد سے متصادم ہے، لہٰذا بت سازى يا مجسمہ سازى اسلامى ثقافت كے دائرے ميں شامل نہيں ہيں ۔ خدا كے اوتار كا روپ دهارنا اسلامى كلچر كى روح كے منافى ہے۔ آفاقى دين كى حيثيت سے اسلام نے تمام دنيا كے انسانوں كے لئے نظامِ معاشرت و ثقافت تجويز فرمايا۔ ہمارے دانشوروں نے جس چيز كو’دهرتى كى ثقافت‘ سمجھ كر تقدس كا درجہ دے ركها ہے يہ درحقيقت آرياوٴں كى ثقافت ہے۔ بعض سيكولر اور ملحد دانشور اسلامى ثقافت كو عربوں كى ثقافت كہہ كر اس كو ردّ كرنے كا رجحان ركهتے ہيں ، مگر وہ آرياوٴں كى ثقافت سے جذباتى وابستگى ركهتے ہيں حالانكہ آريا جرمن نسل كے باشندے تهے جو مذہب كے الہامى تصور سے آشنا ہى نہ تهے۔ كہا جاتا ہے كہ بعض صوفيا نے ہندووٴں كے تہواروں ميں شركت كے متعلق لچك كا مظاہره كيا تها۔ اگرچہ ان كا يہ دعوىٰ بهى محل نظر ہے، مگر سوچنے كى بات يہ ہے كہ اگر ہزاروں سال پہلے بعض صوفيا نے ہندووٴں كو اسلام كى طرف راغب كرنے كے لئے حكمت كے تقاضوں كے مطابق اسلام ميں نئے داخل ہونے والوں كے لئے اس طرح كى رعايت دى تو آج كے مسلمان اس رعايت كو اپنا استحقاق كيوں سمجھتے ہيں ۔ اس وقت تو برصغیر ميں اسلامى ثقافت كا آغاز ہى ہوا تها، كيا آج تك ہم اسى ارتقا اور قومى اعتبار سے ناپختگى كى منزل ميں ہيں كہ ہندووٴں كى ثقافت كو اپنى ثقافت سمجھنے كے فريب ميں مبتلا رہيں ۔ يہ بات بے حد افسوسناك ہے كہ ہمارے ہاں اب تك ثقافت كو اسلامى نظريہٴ حيات كى روشنى ميں جانچنے كى علمى روايات نہ ہونے كے برابر ہے۔ ہمارے جديد دانشوروں نے اپنے زعم ميں ’كٹھ ملائيت‘ كے خلاف شديد ردعمل ظاہر كرنے كو ہى اپنے علم و فضل كا واحد معيار بنا لياہے۔ اسلامى كلچر كى تشكيل و ارتقا اور